تبدیلی کا نعرہ لگانے والے، تبدیل نہ ہو پائے

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2016
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے یومِ تاسیس کے موقع پر جلسے کے دوران چئیرمین عمران خان اور ترجمان نعیم الحق موجود ہیں– فوٹو/ بشکریہ پی ٹی آئی آفیشل فیس بک پیچ
اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے یومِ تاسیس کے موقع پر جلسے کے دوران چئیرمین عمران خان اور ترجمان نعیم الحق موجود ہیں– فوٹو/ بشکریہ پی ٹی آئی آفیشل فیس بک پیچ

اسلام آباد: اگر دیکھا جائے تو پاکستان تحریکِ انصاف(پی ٹی آئی) کو اپنی 20ویں سالگرہ منانے کا اس سے بہتر وقت نہیں مل سکتا تھا۔

ایک ایسے وقت میں جب کہ شریف خاندان پاناما پیپرز کے بے پناہ دباؤ میں ہیں اور اپوزیشن جماعتیں بھی تحقیقات کا شور مچا رہی ہیں، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے دھمکی دی ہے کہ وہ رائے ونڈ میں وزیراعظم کی رہائش گاہ کے باہر اُس وقت تک دھرنا دیں گے جب تک ان کی آف شور کمپنیوں کی آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ پورا نہیں کیا جاتا۔

گزشتہ روز پارٹی کا ایک نیا نعرہ 'کرپشن سے چھٹکارا، عمران خان نے پکارا' سننے کو ملا جس سے پارٹی کی سمت میں تبدیلی اور اس کی سماجی انصاف کی جڑوں میں واپسی دیکھی گئی۔

پی ٹی آئی کا سفر جس نے اُسے موجودہ پارلیمنٹ کی 3 بڑی قوتوں میں سے ایک بنایا ہے، بالکل بھی آسان نہیں تھا۔

مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کاسندھ میں انسدادکرپشن تحریک کااعلان

ہر قسم کے حالات میں پارٹی کے ساتھ کھڑے رہنے والے عمران خان کے ترجمان نعیم الحق نے ڈان سے بات کرتے ہوئے کہاکہ 'وہ 126 دن کا دھرنا جو 2013 کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کے خلاف شروع کیا گیا تھا، عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا' اور ان کے مطابق اس دھرنے نے 'پی ٹی آئی کو زیادہ نقصان پہنچایا'۔

لیکن یہ بڑا مظاہرہ اپنے ساتھ کچھ نقصانات بھی لایا اور اس طویل دھرنے نے عمران خان کی ساکھ کو سیاسی طور پر ناقابلِ اعتبار اور ایک بے قابو شخص کے طور پر پیش کیا۔

قبل ازیں پی ٹی آئی نے 2013 کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے خلاف کچھ ریلیاں نکالی تھیں، مگر جون 2014 میں پاکستان عوامی تحریک (پی اے ٹی) کے 12 کارکنان کی ہلاکت کو مدِ نطر رکھتے ہوئے انہوں نے حکومت کے خلاف آواز بلند کی۔

عمران خان کے ناقدین کے مطابق، اگست 2014 کا لانگ مارچ اور دھرنا اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر کیا گیا تھا۔ اس نظریے کو تقویت اُس وقت ملی جب دھرنے کے دوران پارٹی کے صدر جاوید ہاشمی نے استعفیٰ دے دیا۔

سابق وزیر اسحاق خاکوانی، جنہوں نے پہلے جنرل مشرف کے لیے بھی کام کیا اور بعد میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کی، کا کہنا تھا کہ اگر ذوالفقارعلی بھٹو کے اقتدار میں آنے سے موازنہ کیا جائے تو مٹھی بھر افراد کی 20 سالہ کاوش، لاکھوں کی تحریک میں بدل گئی۔

ایسے میں جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملکی سیاست میں پارٹی (پی ٹی آئی) کا کردار بڑھتا جا رہا ہے، وہ پھر بھی نئی سیاسی ثقافت کو سامنے لانے میں ناکام ہے۔

some_text

          پی ٹی آئی چیئرمین کی سب سے بڑی فتح پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جگہ لینا ہے
                                                           

کسی بھی دوسری سیاسی پارٹی کے رہنما کی طرح عمران خان بھی مجبور ہیں کہ وہ پرانے سیاستدانوں اور ووٹ بینک رکھنے والے سیاست دانوں پر بھروسہ کریں۔ اس طریقہ کار سے عمران خان کو دوست اور دشمن، دونوں کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کا 'جسٹس وجیہہ ٹریبونل' تحلیل

اتنی ساری کوششوں کے باوجود، عمران خان پارٹی کے اندر شفاف جمہوری نظام متعارف نہیں کروا پائے۔ پی ٹی آئی کے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن، مئی 2013 کے عام انتخابات سے قبل ہوئے، جسے بعد میں پارٹی کے اپنے الیکشن کمشنر سابق جسٹس وجیہہ الدین احمد کی جانب سے تحفظات کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم بعدازاں سابق جج نے بھی اُس وقت پارٹی سے اپنی راہیں الگ کرلیں جب ان کی سفارشات کو نظرانداز کردیا گیا۔

پی ٹی آئی کے دوسرے انٹرا پارٹی الیکشن کو بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا جب گزشتہ ماہ پارٹی کے دوسرے الیکشن کمشنر اور سابق بیوروکریٹ تسنیم نورانی نے اس بناء پر استعفیٰ دے دیا کہ پارٹی کے رہنما ان کے کردار کو کمزور کررہے تھے۔

عمران خان نے فوراً انتخابات کو مؤخر کردیا اور اس کی وجہ پانامہ لیکس پر حکومت کے خلاف تحریک بتائی، لیکن اختلافات کے بیج پارٹی کے اندر بو دیئے گئے۔ رواں ماہ کے آغاز میں سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے جہانگیر ترین کو تنقید کا نشانہ بنایا، جبکہ رکن قومی اسمبلی شفقت محمود نے بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔

یوم تاسیس کے موقع پر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی ایک ساتھ کھڑے ہیں—۔فوٹو/ بشکریہ پی ٹی آئی آفیشل فیس بک پیچ
یوم تاسیس کے موقع پر جہانگیر ترین اور شاہ محمود قریشی ایک ساتھ کھڑے ہیں—۔فوٹو/ بشکریہ پی ٹی آئی آفیشل فیس بک پیچ

یہ تمام معاملات ایک دوسرے مسئلے کی جانب بھی نشاندہی کرتے ہیں اور وہ ہے عمران خان کا تذبذب۔ لوگوں کو اس کی جھلک دھرنے کے دوران دیکھنے کو ملی جب انہوں نے اسمبلی سے اپنی پارٹی کے استعفوں کا اعلان کیا لیکن بعد میں اس سے انکار کردیا۔ ناقدین نے ان کی ذاتی زندگی کی جانب بھی اشارہ کیا اور کہا کہ یہ بڑے مسائل کی جانب نشاندہی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں پاناما لیکس: نیب سے تحقیقات کا مطالبہ

لیکن اس سب کے باوجود پی ٹی آئی چیئرمین کی سب سے بڑی فتح پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جگہ لینا ہے۔ 2 جماعتی نظام میں کسی تیسری پارٹی کا داخلہ آسان نہیں ہوتا، لیکن ان تمام عملی مقاصد کے لیے پی ٹی آئی نے پی پی پی کی جگہ لے لی ہے۔

some_text

          وہ 126 دن کا دھرنا عمران خان کی سیاسی جدوجہد کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا، جس نے پی ٹی آئی کو زیادہ نقصان پہنچایا

                                                            —نعیم الحق

اس حقیقت کو ہر جگہ تسلیم کیا گیا ہے۔ تھنک ٹینک اور سول سوسائٹی آرگنائزیشن، روزانہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی کی حکومت اور پنجاب اور وفاق میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کی حکومت کا موازنہ کرتے ہیں ، جس سے روزانہ پی ٹی آئی کے لیے مثبت جائزے سامنے آتے ہیں۔

عمران خان کی جماعت کو حزبِ اختلاف میں تقویت حکومت کی جانب سے دی گئی اہمیت اور وزارت اطلاعات کے میڈیا سیل کی وجہ سے ملی، جو عمران خان کی جان سے حکمران جماعت پر لگائے گئے تمام الزامات کا جواب دیتا ہے۔

تاریخی پس منظر

اگر حالیہ پارٹیوں سے موازنہ کیا جائے تو پی ٹی آئی کی تاریخ خاصی مختلف ہے۔

ماضی میں مسلم لیگ کو آمروں نے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔ پی پی پی کے بانی رہنما کو جنرل ایوب خان کا زیرِ تربیت شخص مانا گیا۔ اپنے دورِ عروج میں ریٹائرڈ ایئر مارشل اصغر خان نے 1970 میں تحریکِ استقلال قائم کی جو اپنا تاثر قائم کرنےمیں ناکام رہی۔ حتیٰ کہ 1984 میں قائم ہونے والی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی شاخیں بھی جنرل ضیاء الحق کی عسکری حکومت سے جا کر ملتی ہیں

لیکن پی ٹی آئی کی کہانی عمران خان کی 2 بڑی فتوحات کے بعد شروع ہوئی، جس میں 1992 کے کرکٹ ورلڈکپ میں فتح اور شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال کی کامیابی سے تشکیل شامل ہے۔

1996 میں سیاست کا آغاز کرنے کے بعد انھوں نے 1997 میں اُس وقت سیاست کے کڑوے حقائق کا سامنا کیا جب عمران خان سمیت ان کے کسی بھی نمائندے کا قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں انتخاب نہیں ہوا۔

پِچ پر جمے رہنے کے لیے مشہور عمران خان میدان میں ڈٹے رہے اور اپنے آبائی شہر میانوالی سے صرف ایک نشست حاصل کی، جو سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے فراہم کی تھی۔

عمران خان اُن سیاستدانوں میں سے ایک تھے جنہوں نے 2000 کے آغاز میں ہونے والے ریفرنڈم میں پرویز مشرف کی حمایت کی تھی، لیکن اُس وقت ان کا ساتھ چھوڑ دیا جب مشرف نے طاقت میں رہنے کے لیے روایتی سیاستدانوں کو اپنی چھتری کے نیچے جمع کرنا شروع کردیا۔

2008 میں عمران خان نے جمہوریت کی بحالی کی مہم کے لیے کروائے جانے والے عام انتخابات کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کرتے ہوئے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔

پی ٹی آئی کی ملکی سیاست میں واپسی 30 اکتوبر 2011 کو ہوئی جب عمران خان نے لاہور کے مینارِ پاکستان میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ منعقد کروایا، جس کے بعد انھوں نے واپس مڑ کر نہیں دیکھا۔

یہ خبر 25 اپریل 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔


آپ موبائل فون صارف ہیں؟ تو باخبر رہنے کیلئے ڈان نیوز کی فری انڈرائیڈ ایپ ڈاؤن لوڈ کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Kafayutullah khan Apr 25, 2016 02:32pm
نواز شریف کو اب گھر چلا جانا چاہئے کیونکہ عوام نظروں میں گر چکا ہے
arman Apr 25, 2016 03:22pm
90% politicians are new in PTI