گجرات: فرانزک رپورٹ میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ پاکستانی نژاد برطانوی خاتون سامعہ شاہد کی موت قدرتی طور پر واقع نہیں ہوئی تھی۔

پنجاب پولیس کے انسپکٹر جنرل کی ترجمان نبیلہ غضنفر نے تصدیق کی کہ 'فرانزک رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سامعہ شاہد کی موت طبعی نہیں تھی بلکہ ان کا گلا گھونٹا گیا'۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ٹیم نے 3 مرکزی ملزمان کے پولی گرافک ٹیسٹ بھی کروائے ہیں، جن کی رپورٹس بھی فرانزک رپورٹ کے ساتھ منسلک کی گئی ہیں۔

مزید پڑھیں:برطانوی خاتون کو پاکستان میں 'غیرت' کے نام پر قتل کرنے کا دعوٰی

یاد رہے کہ اس سے قبل سامعہ کی پوسٹ مارٹم میں جہلم کے ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز ہسپتال کی ڈاکٹر ثناء نے واضح کیا تھا کہ خاتون کی گردن پر زخم کا ایک نشان موجود تھا، جبکہ ان کے منہ سے خون آمیز جھاگ بھی باہر آرہا تھا، جس سے ان شکوک و شبہات میں اضافہ ہوا کہ سامعہ کو قتل کیا گیا تھا۔

بریڈ فورڈ سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ بیوٹی تھراپسٹ سامعہ شاہد کی پہلی شادی ان کے کزن چوہدی شکیل سے ہوئی تھی، تاہم دونوں کی طلاق ہوگئی، جس کے بعد انھوں نے ٹیکسلا کے سید مختار کاظم سے دوسری شادی کی اور جوڑے نے دبئی میں رہائش اختیار کرلی۔

یہ بھی پڑھیں:سامعہ کی گردن پر زخم کا نشان تھا، پوسٹ مارٹم رپورٹ

سامعہ شاہد کو ان کی والدہ نے فون پر کہا تھا کہ وہ اپنے والد چوہدری شاہد سے ملنے پنجاب کے ضلع جہلم میں واقع گاؤں پندوری جائیں، کیوں کہ ان کی طبیعت ناساز ہے، جس کے بعد سامعہ گذشتہ ماہ 14 جولائی کو پاکستان پہنچیں۔

20 جولائی کو ان کے والد نے پولیس میں اس حوالے سے رپورٹ درج کروائی کہ ان کی بیٹی دل کا دورہ پڑنے کے باعث وفات پاگئی ہے، جس کے بعد 23 جولائی کو سامعہ کے شوہر مختار کاظم نے منگلہ پولیس میں ان کے والدین، سابق شوہر، ایک بہن اور ایک کزن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کروایا۔

بعدازاں سامعہ کے والد نے اپنا بیان بدل لیا اور کہا کہ ان کی بیٹی نے خودکشی کی۔

یہ بھی پڑھیں:'سامعہ شاہد کا پہلا شوہر مجرمانہ ریکارڈ کا حامل'

ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس پہلے ہی کیس کے مرکزی ملزمان سامعہ کے والد چوہدری شاہد، پہلے شوہر چوہدری شکیل اور ایک کزن چوہدری مبین کو حراست میں لے چکی ہے۔

کیس کے دیگر 2 نامزد ملزمان سامعہ کی والدہ امتیاز بی بی اور ان کی بہن مدیحہ شاہد کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ برطانیہ میں ہیں اور ان سے ابھی تک تفتیش نہیں کی گئی۔

یہ خبر 4 اگست 2016 کے ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں