کراچی: متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے لندن سیکریٹریٹ کے کنوینئر ندیم نصرت نے متحدہ کے تنظیمی ڈھانچے اور تمام شعبہ جات کو تحلیل کرنے کا اعلان کردیا۔

خیال رہے کہ گذشتہ روز ایم کیو ایم پاکستان کے چیف ڈاکٹر فاروق ستار نے متحدہ لندن سیکریٹریٹ کے کنوینئر ندیم نصرت کو عہدے سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا۔

سندھ اسمبلی میں متحدہ قائد کے خلاف منظور کی جانے والی قرار داد کے حوالے سے لندن سے جاری اپنے بیان میں ندیم نصرت نے کہا کہ متحدہ کے بانی کے خلاف قرار داد پیش کرنا انتہائی شرمناک عمل ہے۔

مزید پڑھیں: الطاف حسین کے بغیر ایم کیو ایم کچھ نہیں: ندیم نصرت

اعلامیے میں کہا گیا کہ چند ارکان تحریک بچانے کے نام پر وہ اقدامات کررہے ہیں جو تحریک کے مفاد میں نہیں، ایم کیو ایم ایک ہی ہے اور ایک ہی رہے گی، ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوگی۔

ندیم نصرت کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے رکن قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹرز استعفیٰ دے کر دوبارہ الیکشن لڑیں اور متحدہ کے جو ارکان پارلیمنٹ استعفے نہیں دیتے پارٹی کے کارکنان اور ہمدرد ان سے تعلق ختم کردیں۔

ان کا کہنا تھا کہ رابطہ کمیٹی کے تمام شعبہ جات نئے سرے سے تشکیل دئیے جائیں گے اور ان فیصلوں کی توثیق متحدہ کے بانی نے کردی ہے۔

بیان میں دعویٰ کیا گیا کہ نئی رابطہ کمیٹی اور تنظیمی ڈھانچے کی تشکیل کے لیے تمام اختیارات ندیم نصرت کو تفویض کردئیے گئے ہیں۔

لندن سے آنے والے بیان سے فرق نہیں پڑتا، فاروق ستار

ندیم نصرت کے مذکورہ بیان کے بعد نجی ٹی وی سے بات چیت کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ لندن سے چاہے کوئی بھی بیان آئے اس سے فرق نہیں پڑتا، 'ایم کیو ایم کا کوئی رکن پارلیمنٹ مستعفی نہیں ہوگا'۔

انھوں نے کہا کہ ہمارا لندن سے کوئی تعلق نہیں، ہم نے پہلے ہی لندن سے قطع تعلق کررکھا ہے، جو پالیسی اور فیصلے ہم نے 23 اگست کو طے کیے تھے اسی کے مطابق کام کرتے رہے گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی یقین و اعتماد کے ساتھ ایم کیو ایم کے تمام شعبے اپنی پرامن سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان کے تمام ذمہ دار اور کارکنان اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھتے ہوئے اسی جذبے کے ساتھ تحریکی مشن کو آگے لے کر چلیں گے۔

ادھر ندیم نصرت کے بیان کے بعد کراچی میں ایم کیو ایم کا ہنگامی اجلاس شروع ہوگیا جس میں مذکورہ بیان کے بعد کی صورتحال پر غور کیا گیا۔

دن کے آغاز میں ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنے کے حوالے سے ایک مشترکہ قرارداد سندھ اسمبلی میں متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی۔

اس موقع پر ایم کیو ایم رہنما رؤف صدیقی نے سندھ اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ان کی زندگی میں 6،7 راتیں ایسی گزریں جنھیں وہ کبھی نہیں بھول پاتے، ایک جب ان کی والدہ کا انتقال ہوا، دوسرا سانحہ نشتر پارک، تیسرا سانحہ بلدیہ فیکٹری اور ایک 22 اگست جب کراچی پریس کلب کے باہر سے آنے والی آوازوں نے انھیں بے چین کیا۔

ایم کیو ایم رہنما اور سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خواجہ اظہار الحسن نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ ایم کیو ایم کا ہر کارکن مجرم ہے، انھوں نے تسلیم کیا کہ 22 اگست کو اللہ کی آزمائش تھی اور یہ دن کسی قیامت سے کم نہیں تھا۔

ایم کیو ایم رہنما کے مطابق اس واقعے کے بعد ان کے پاس ملک بدر ہونے، پارٹی بدلنے اور واقعے کی ذمہ داری لے کر معاملات حل کرنے کے سارے آپشن تھے، لیکن ہم نے پارٹی نہیں بدلی اور نہ ہی ملک سے باہر گئے۔

یاد رہے کہ گذشتہ روز متحدہ پاکستان نے پارٹی کے لندن سیکریٹریٹ کے ذمہ داروں، جن میں ندیم نصرت، واسع جلیل سمیت دیگر شامل تھے، کو عہدوں سے ہٹانے کا اعلان کیا تھا، جس کے بعد ایم کیو ایم کے ناراض رہنما سلیم شہزاد نے ندیم نصرت کو پارٹی میں پیدا ہونے والے حالیہ مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ فیصلہ بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔

متحدہ کے قائد نے کیا کہا۔۔۔۔۔۔۔

واضح رہے کہ بانی ایم کیو ایم کے خلاف سندھ اسمبلی میں یہ قرارداد گذشتہ ماہ 22 اگست کو کراچی پریس کلب پر بھوک ہڑتالی کیمپ میں بیٹھے کارکنوں سے ان کے خطاب کے بعد پیش کی گئی، جس میں الطاف حسین نے پاکستان مخالف نعرے لگوائے تھے، جس پر کارکنوں نے مشتعل ہوکر نجی نیوز چینل اے آر وائی نیوز کے دفتر پر حملہ کردیا تھا۔

پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی اورآنسو گیس کا استعمال کیا، اس موقع پر فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا تھا۔

اسی روز الطاف حسین نے امریکا میں بھی کارکنان سے خطاب کیا تھا، جس کی آڈیو کلپ انٹرنیٹ پر سامنے آئی جس میں الطاف حسین نے کہا کہ 'امریکا، اسرائیل ساتھ دے تو داعش، القاعدہ اور طالبان پیدا کرنے والی آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج سے خود لڑنے کے لیے جاؤں گا

بعدازاں پریس کلب پر میڈیا سے گفتگو کے لیے آنے والے ایم کیو ایم رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار اور خواجہ اظہار الحسن کو رینجرز نے گرفتار کرلیا تھا جبکہ ڈاکٹر عامر لیاقت کو ان کے دفتر سے گرفتار کیا گیا،ان رہنماؤں کو اگلے دن رہا کیا گیا۔

دوسری جانب ان واقعات کے بعد رینجرز اور پولیس نے شہر بھر میں کارروائیاں کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے مرکزی دفتر نائن زیرو سمیت متعدد سیکٹرز اور یونٹس بند کرنے کے ساتھ پارٹی ویب سائٹ کو بھی بند کردیا تھا۔

23 اگست کو دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے تمام فیصلے پاکستان میں کرنے کا اعلان کیا، بعدازاں پارٹی کی جانب سے اپنے بانی اور قائد سے قطع تعلقی کا بھی اعلان کردیا گیا اور ترمیم کرکے تحریک کے بانی الطاف حسین کا نام پارٹی کے آئین اور جھنڈے سے بھی نکال دیا گیا، اسی روز سے ڈاکٹر فاروق ستار نے متحدہ قومی موومنٹ کی سربراہی سنبھال لی تھی۔

الطاف حسین کے پاکستان مخالف بیان پر حکومت بانی ایم کیو ایم کے خلاف کارروائی کے لیے ریفرنس برطانیہ بھیج چکی ہے۔

وزارت داخلہ کے ترجمان کے مطابق ریفرنس میں برطانیہ سے عوام کو تشدد پر اکسانے اور بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف قومی اسمبلی میں بھی متفقہ قرارداد منظور ہو چکی ہے، ایوان میں متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے بھی اس قرار داد کی حمایت کی گئی تھی.

یاد رہے کہ کراچی میں گزشتہ دنوں ایسے بینرز بھی لگائے گئے تھے جن میں صرف الطاف حسین کو ہی قائد قرار دیا گیا تھا،ان بینرز پر 'جو قائدِ تحریک کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے' بھی تحریر تھا، ان بینرز کے دو روز بعد کراچی کی شاہراہوں پر بلند مقامات پر بھی چند بینرز دیکھے گئے جن پر ’جوملک کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے‘ تحریر تھا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai Sep 22, 2016 01:39am
کس نے کس کو ایم کیو ایم سے نکالا ابھی حالات کنفیوژن کا شکار ھیں ایم کیو ایم لندن ایم کیو ایم ھے یا فاروق ستار کی کراچی والی ایم کیو ایم ھے لیکن ایک بات طے ھے کہ ایم کیو ایم پاکستان ہی پاکستان کی ایم کیو ایم پارٹی ھے لندن والوں کا استعفوں کا مطالبہ وزن دار نہیں کیونکہ ایم کیو ایم کے تمام ارکان اسمبلی و سینٹ ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ ھیں