اسلام آباد: آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی جانب سے الوداعی ملاقاتوں اور دوروں کا سلسلہ شروع کرتے ہی نئی آرمی چیف کی تقرری کے لیے الٹی گنتی کا آغاز ہوگیا، جنرل راحیل شریف 29 نومبر کو اپنے عہدے سے ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کی 29 نومبر 2016 کو ریٹائرمنٹ کے بعد وزیر اعظم نواز شریف سینیئر ترین فوجی عہدیدار کو نئے آرمی چیف کے طور پر مقرر کریں گے، نواز شریف وہ پہلے پاکستانی وزیر اعظم ہیں جو 4 بار آرمی چیف کی تقرری کریں گے۔

وزیر اعظم نواز شریف نئے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی کی بھی تقرری کریں گے، چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود بھی ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔

پاکستانی فوج کے تعلقات عامہ کے شعبے (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل(ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل عاصم باجوہ نے سوشل ویب سائٹ ٹوئٹر پر ٹوئٹ کرتے ہوئے بتایا کہ جنرل راحیل شریف کی جانب سے الوداعی دوروں کے آغاز سے ہی تمام قیاس آرائیاں دم توڑ چکی ہیں، آرمی چیف مقررہ وقت پر اپنے عہدے سے الگ ہونے کا اپنا وعدہ پورا کرنے جا رہے ہیں، جو انہوں نے رواں برس کیا تھا۔

یاد رہے کہ جنرل راحیل شریف نے اپنی ریٹائرمنٹ کا اعلان وقت سے پہلی ہی کردیا تھا,آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق بیان جاری کرتے ہوئے آئی ایس پی آر نے آرمی چیف کی جانب سے مدت ملازمت میں توسیع لینے والی افواہوں کو مسترد کردیا تھا۔

آئندہ ہفتے رہٹائرڈ ہونے والے آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے اپنی الوداعی دوروں کا آغاز لاہور گیریژن سے کیا، آرمی چیف نے اپنے الوداعی دورے کے دوران پاک فوج اور رینجرز افسران سے ملاقات میں کہا کہ ملک کو درپیش خطرات کو ناکام بنا کر وہ ملک کو پہلے سے بہتر، پر امن اور مضبوط حالت میں چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا اگلا آرمی چیف کون ہوگا؟

وزیر اعظم کے معاونین کے مطابق نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کی کامیاب دور کے بعد ان کی جگہ دوسرے آرمی چیف کے تقرر کے لیے تیاری کرلی ہے، تاہم انہوں نے یہ راز اپنے سینے میں ہی چھپا رکھا ہے۔

جنرل راحیل شریف کی جگہ کون لیں گے، اس بات کا پتہ تو صرف وزیر اعظم نواز شریف کو ہی ہے، مگر سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں میں نئے آرمی چیف سے متعلق چہ مگوئیاں شروع ہوچکی ہیں، سیاستدانوں کے مطابق امکان یہی ہے کہ اگلے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل اشفاق ندیم ہوں گے، جنرل اشفاق ندیم اس وقت ملتان کے کور کمانڈر کے طعر پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: جنرل راحیل شریف کا مختصر تعارف

سیاسی حلقوں میں لیفٹیننٹ جنرل زبیر محمود کو نئے چیئرمین آف جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی بنانے کی پیش گوئیاں کی جا رہی ہیں، سیاسی حلقوں میں بہاولپور کے کورکمانڈر لیفیٹننٹ جنرل جاوید اقبال رمدے اور انسپکٹر جنرل ٹریننگ اینڈ ایوو لیوئیشن لیفٹینٹ جنرل قمر باجوہ کے نام بھی لیے جا رہے ہیں۔

پاک فوج کے ان 4 سینیئر ترین جنرلز کا تعلق پاکستان ملٹری اکیڈمی کے 62 ویں لانگ کورس سے ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نئے آرمی چیف مقرر کرتے وقت منتخب کرنے والے افسر میں سرحدوں کے دفاع اور حفاظتی اقدامات کے روایتی انداز، دہشت گردی کے خلاف جنگ سے متعلق حکمت عملی اور نگرانی جیسے معاملات جیسی خوبیوں اور تجربات کو نظر میں رکھیں گے۔

نئے آرمی چیف کے تقرر کے طریقہ کار کے مطابق پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹرز (جی ایچ کیو) کی جانب سے وزارت دفاع کے تحت وزیر اعظم نواز شریف کو 4 سینیئر ترین عہدیداروں کے نام بھیجے جاتے ہیں، پاک فوج وزیراعظم کو کوئی ایک نام تجویز نہیں کرتی۔

خود آزمائیں: آپ راحیل شریف کو کتنا جانتے ہیں؟

فوج کے نئے سربراہ کے تقرر سے قبل وزیر اعظم حاضر سروس آرمی چیف سے مشاورت کرنے کے بعد نئے چیف کا اعلان کرتے ہیں، وزیر دفاع آصف خواجہ نے پیر 21 نومبر 2016 کو کہا تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف جلد ہی جنرل راحیل شریف سے مشورہ کرکے نئے آرمی چیف کا اعلان کریں گے۔

جنرل راحیل شریف کی عوام میں مقبولیت

جنرل راحیل شریف کی جانب سے ایک محافظ کے طور پر دہشت گردی اور کرپشن کے خلاف بلا تفریق کارروائی نے انہیں عوام میں مقبول بنایا، بلا تفریق کارروائیوں کی وجہ سے وہ لوگوں کے لیے مسیحا ثابت ہوئے۔

جنرل راحیل شریف کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نواز حکومت کے خلاف 2014 میں پارلیمنٹ کے باہر پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) اور پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی) کی جانب سے کیے گئے مظاہروں کے درمیان انہوں نے حکومت اور مظاہرین میں ثالثی کا کردار ادا کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:شکریہ راحیل شریف، مگر...

جنرل راحیل شریف کی قیادت میں پاک فوج کے میڈیا کے شعبے نے خاصی مقبولیت حاصل کی، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی حکمت عملی کی وجہ سے ہی سوشل میڈیا پر شکریہ راحیل شریف جیسے اصطلاح اور ہیش ٹیگ دیکھنے کو ملے۔

جنرل راحیل شریف کی مقبولیت سے فائدہ اٹھانے کے لیے بلدیاتی انتخابات کے دوران کئی امیدواروں اور سیاسی پارٹیوں نے جنرل راحیل شریف کی تصویر استعمال کی، جب کہ کچھ کالعدم تنظیموں نے بھی اپنے مذموم مقاصد کے لیے آرمی چیف کی تصویر کا استعمال کیا۔

کراچی، بلوچستان اور پنجاب سے دہشت گردوں کی نرسریاں ختم کرنے سمیت دیگر مسائل کی وجہ سے ریاست مشکلات کا شکار رہی، مگر جنرل راحیل شریف کی حکمت عملی کی وجہ سے ایسے مسائل پر قابو پانے کے لیے خاطر خواہ کامیابیاں ملیں۔

مزید پڑھیں:بنوں: جنرل راحیل شریف کی حمایت میں ریفرنڈم

جنرل راحیل شریف وہ پہلے آرمی چیف بھی ہیں جنہوں نے رشوت خوری کے خلاف کارروائیوں کی مہم کا آغاز اپنے ہی ادارے سے کرتے ہوئے کرپشن ثابت ہونے پر 4 جنرلز کے خلاف کارروائی کی، کرپشن میں ملوث پائے گئے حاضر سروس 2 جنرلز کو نوکریوں سے برطرف کردیا گیا، مگر کرپشن کے خلاف کارروائیوں کی مہم پر برا اثر اس وقت پڑا جب کرپشن میں ملوث پائے گئے فرنٹیئر کور (ایف سی) کے انسپکٹر جنرل آرمز لیفٹیننٹ جنرل عبیداللہ خٹک اور میجر جنرل اعجاز شاہد کا اسکینڈل سامنے آیا۔

جنرل راحیل شریف کے دور کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ ان کی جانب سے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا، جس میں فوج کو کامیابی حاصل ہوئی، مگر راحیل شریف کی قیادت میں یہ احساس جنم لینے لگا کہ شاید آئی ایس پی آر جنرل کیانی کی جانب سے شمالی وزیرستان میں شروع کیے گئے آپریشن کو بھولتا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:'طالبان صرف جنرل راحیل شریف سے خوفزدہ ہیں'

دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں کے ردعمل پر ہی دہشت گردوں نے آرمی پبلک اسکول پشاور، چارسدہ یونیورسٹی اور صفورا گوٹھ جیسے حملے کیے، ان واقعات نے سول ملٹری قیادت، تمام سیاسی پارٹیوں اور عوام کو یکجا کیا جبکہ آئندہ ایسے سانحات سے بچنے کے لیے حکمت عملی تیار کرنے پر بحث ہونے لگی، اور نیشنل ایکشن پلان کے تحت دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر اتفاق کیا گیا۔

آئی ایس پی آر نے کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر حکومتی کوتاہیوں پر فوجی قیادت کی ناراضگی کا اظہار کیا، نیشنل ایکشن پلان پر مکمل عمل نہ ہونے کی وجہ سے کراچی اور بلوچستان میں دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاسکا، حال ہی میں بلوچستان میں درگاہ شاہ نورانی اور کوئیٹہ پولیس اکیڈمی پر حملے کیے گئے،جب کہ پنجاب میں بھی دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائیاں نہ ہونے پر خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں۔

جنرل راحیل شریف کے دور میں ہی فوج نے کہا تھا کہ پاک فوج بھارت، افغانستان، ایران اور چین جیسے پڑوسی ممالک کے ساتھ پرامن تعلقات سے مطمئن ہے، جنرل راحیل شریف کے دور میں فوج نے امریکا کے ساتھ بہتر تعلقات اور افغانستان میں امن قائم کرنے کے لیے بھی افغان امن عمل مذاکرت میں اچھا کردار ادا کیا۔

فوج کے بڑھتے اثر و رسوخ کی جانب سے نواز شریف کی حکومت کو پاکستان کی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا، جنرل راحیل شریف نے اپنی مدت کے دوران کئی کامیاب دورے بھی کیے اور ریاست کے کئی معاملات ان کے دوروں سے مشروط بھی رہے۔


یہ رپورٹ 22 نومبر 2016 کو ڈان میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں