سانحہ بلدیہ فیکٹری کیس میں مطلوب ملزم عبدالرحمٰن عرف بھولا بنکاک سے گرفتار ہوگیا۔

تھائی لینڈ کے اخبار بنکاک پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق پولیس نے عبدالرحمٰن بھولا کو بنکاک کے رائل گارڈن ہوٹل کے کمرہ نمبر 405 سے حراست میں لیا گیا۔

واضح رہے کہ ستمبر 2012 میں کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں فیکٹری میں لگنے والی آگ کے نتیجے میں 250 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔

اخبار کے مطابق بنکاک پولیس کے کمانڈوز نے چھاپہ مار کارروائی میں حصہ لیا اور عبدالرحمٰن کو حراست میں لیا۔

رپورٹ کے مطابق پولیس کو عبدالرحمٰن بھولا ہوٹل کے کمرے میں تنہا ملا اور وہاں انہیں کوئی ایسی غیر قانونی چیز دکھائی نہیں دی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ بلدیہ فیکٹری:'منظم دہشت گردی کا منصوبہ قرار‘
عبدالرحمٰن عرف بھولا سے تھائی پولیس تفتیش کررہی ہے — فوٹو / اے ایف پی
عبدالرحمٰن عرف بھولا سے تھائی پولیس تفتیش کررہی ہے — فوٹو / اے ایف پی

بنکاک کے کرائم سپریشن ڈویژن (سی ایس ڈی) کے قائم مقام کمانڈر سوتھن ساپوانگ نے چھاپہ مار کارروائی کی قیادت کی اور بتایا کہ یہ گرفتاری 11 ستمبر 2012 کو کراچی کے علی انٹرپرائزز ٹیکسٹائل فیکٹری میں لگنے والی آف سے متعلق ہے جس میں 259 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ پاکستانی حکام اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ آگ جان بوجھ کر لگائی گئی اور اس واقعے میں رحمٰن بھولا کو ملزم ٹھہرایا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کراچی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے رواں برس 16 ستمبر کو رحمٰن بھولا کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے اور بعد ازاں انہیں معلوم ہوا تھا کہ ملزم تھائی لینڈ فرار ہوچکا ہے۔

تھائی لینڈ کے انٹرپول چیف میجر جنرل اپیچارٹ سوری بونیا نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’46 سالہ عبدالرحمٰن کو پاکستانی حکام کی جانب سے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے بعد حراست میں لیا گیا اور جیسے ہی پاکستان تیار ہوگا اسے وہاں بھیج دیا جائے گا‘۔

یاد رہے کہ کیس کی طویل تحقیقات کے بعد گزشتہ ماہ پولیس نے انسداد دہشت گردی قانون کے تحت ضمنی چارج شیٹ پیش کی تھی جس کے تحت ایم کیو ایم کراچی تنظیمی کمیٹی کے سابق سربراہ حماد صدیقی، ان کے مبینہ فرنٹ مین اور اس وقت بلدیہ کے سیکٹر انچارج عبدالرحمٰن عرف بھولا اور دیگر تین سے چار نامعلوم افراد کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ اس کیس میں شامل دیگر درجنوں افراد کو عدم ثبوت کی بناء پر چھوڑ دیا گیا تھا جبکہ فیکٹری کے مالکان کو پروسیکیوشن کے گواہ کے طور پر نامزد کیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سانحہ بلدیہ ٹاﺅن کی نئی تحقیقات شروع

ابتدائی طور پر اس واقعے پر پولیس نے فیکٹری مالکان اور چند ملازمین کے خلاف چار شیٹ تیار کی تھی تاہم گزشتہ برس فروری میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے سندھ ہائی کورٹ میں رپورٹ پیش کی جس میں انکشاف کیا گیا کہ مالکان کی جانب سے بھتہ نہ دینے پر فیکٹری کو آگ لگائی گئی۔

اس کے بعد مارچ میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے ذریعے واقعے کی دوبارہ تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا.

جے آئی ٹی نے حماد صدیقی، عبدالرحمٰن، زبیر، علی حسن، عمر حسن، عبدالستار، اقبال ادیب خانم اور چار نا معلوم افراد کو ملزم نامزد کیا تھا تاہم پولیس کا کہنا تھا کہ ان میں سے صرف دو ملزمان کے خلاف قابل تجریم شواہد موجود ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں