اسلام آباد: قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی نے گلوبل وارمنگ کے چیلنجز سے نمٹنے کے حوالے سے بل کی منظوری دے دی۔

پاکستان کلائمیٹ چینج بل 2016 قانون بننے سے قبل منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔

قائمہ کمیٹی کے اجلاس کے دوران وزیر موسمیاتی تبدیلی زاہد حامد نے اراکین سے حمایت کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان ان ممالک کی فہرست میں 134واں ملک ہے جو گلوبل وارمنگ میں حصہ ڈال رہے ہیں، تاہم موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے یہ ساتواں غیر محفوظ ملک ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اس بل کی منظوری سے پاکستان دنیا کے ان 5 ممالک میں شامل ہوجائے گا جنہوں نے موسمی تبدیلی کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے اس حوالے سے خصوصی قوانین بنائے۔‘

یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی: 'سالانہ 20 ارب ڈالر کا نقصان'

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے پالیسیاں تشکیل دینے کے علاوہ یہ بل، ’پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی‘ کے قیام پر بھی توجہ مرکوز کرتا ہے۔

کمیٹی اراکین کو بتایا گیا کہ اس حوالے سے فنڈز حاصل کرنے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر منصوبوں کے پورٹ فولیو بنانا انتہائی ضروری ہیں، جبکہ یہ فنڈز ان ممالک کو دیئے جائیں گے جو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کے حوالے سے غیر محفوظ ہیں۔

وزارت موسمیاتی تبدیلی کے سیکریٹری سید ابو عاکف کے مطابق ’اتھارٹی قواعد و ضوابط پر ملک بھر میں نفاذ کو یقینی بنانے کے علاوہ بین الاقوامی فنڈنگ کو محفوظ بنانے کے لیے بھی کام کرے گی۔

کمیٹی اراکین کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان کے لیے موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والے اثرات کے اخراجات سالانہ ایک ارب ڈالر ہیں۔

مزید پڑھیں: 'موسمیاتی تبدیلی سے انسانی زندگی کو سنگین خطرات'

اراکین نے حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے باعث ممکنہ طور پر کاربن کے اخراج میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ارکین مراد سعید اور مسرت احمد زیب نے چین کے کوئلے کے پاور پلانٹس کی مخالفت کی، جن سے کاربن کے اخراج میں کئی گنا اضافہ ہوگا۔

انہوں نے ملک کے شمالی حصوں سے تیزی سے جنگلات ختم کیے جانے کی بھی شکایت کی۔

تاہم حکومتی وزیر زاہد حامد نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت نے بین الاقوامی برادری کو آگاہ کیا ہے کہ پاکستان ترقی کی راہ پر گامزن ہے، جس کے باعث کاربن کا سالانہ اخراج 405 میٹرک ٹن سے بڑھ کر 2030 تک ایک ہزار 603 میٹرک ٹن ہونے کا امکان ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: آب و ہوا میں تبدیلی سے زراعت کو خطرہ

ان کا کہنا تھا کہ ’اگرچہ کوئلے سے چلنے والے پاور پلانٹس توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے دستیاب بہترین ٹیکنالوجی ہے، لیکن اس کے باوجود ان سے فضا میں کاربن کا اخراج بڑھے گا۔‘

زاہد حامد نے کہا کہ ’پاکستان نے کاربن کے اخراج کو 20 فیصد تک لانے کے لیے بین الاقوامی سطح پر قائم گرین کلائمیٹ فنڈ سے تعاون مانگا ہے، جبکہ ملک کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے سالانہ 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ گلوبل وارمنگ کے خطرات نے پاکستان کو خوراک، پانی اور توانائی سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین خدشات سے دوچار کیا ہے۔


یہ خبر 14 دسمبر 2016 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں