موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستانی زراعت کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ فائل تصویر رائٹرز

پاکستان کی وفاقی وزارتِ ماحولیات نے میڈیا میں ایک رپورٹ تقسیم کی ہے جس کے تحت ملک میں آب و ہوا میں تبدیلی کے زراعت پر ممکنہ اثرات کے متعلق خبردار کیا گیا ہے۔

یہ رپورٹ ان زرعی منصوبہ سازوں کو جھنجھوڑنے کیلئے کافی ہے جو زراعت پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ہمیشہ انکار کرتے رہتے ہیں۔

آب وہوا میں تبدیلیوں کےخطرات نامی یہ رپورٹ اگرچہ پہلے سے موجود ایک ضخیم رپورٹ میں اضافہ ہے لیکن اب یہ ایک آفیشل دستاویز ہے کیونکہ اس کی تیاری میں وفاقی وزارت، اور اس کے نامزد مصنفین اور کچھ بین الاقوامی ادراروں کو بھی شامل کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ میں شامل آب و وہوا سے متاثر ہونے والے نو میں سے چھ اہم شعبوں کا تعلق براہِ راست کھیتی باڑی اور زراعت سے ہے۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کاربن سے بھرپور کوڑا کرکٹ دریائے سندھ کے پانی میں شامل ہورہا ہے اور یہ گلیشیئروں سے آرہا ہے۔ اس طرح ہر طرح کی آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ یہ سرگرمیاں، ہندوکش، قراقرم اور ہمالیہ ، تینوں پہاڑی سلسلوں میں جاری ہیں اوریہ تینوں پاکستانی دریاوں کو سیراب کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے موسموں میں شدت اور شدید موسمی کیفیات میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ عالمی تپش سے گلیشیئر کے پیچھے ہٹنے اور پہاڑیوں کے کناروں پر ٹرانس باونڈری آلودگی اور کاربن جمع ہونے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ شدید بارشوں اور سیلاب سے  ڈیموں میں ریت جمع ہونے میں اضافہ ہورہا ہے۔

دوسری جانب بارانی  اور نیم بارانی علاقوں میں حرارت اور پانی کی قلت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ انڈس ڈیلٹا میں سمندری پانی کی آمد میں اضافے سے مینگروز اور ساحلی زراعت کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ ملک کے بالائی اور زیریں علاقوں میں پانی سے وابستہ تنازعات بھی بڑھ سکتے ہیں۔

حالیہ رپورٹ بین الاقوامی تحقیقات کی محض قومی تصدیق ہے اور قومی بحث کا حصہ بن چکی ہے۔ لیکن سیاسی اتفاقِ رائے کے بغیر ان گھمبیر مسائل سے کیسے نمٹا جاسکتا ہے۔

ان میں ڈیموں میں گاد یا مٹی جمع ہونے کا ایک اہم اور قومی مسئلہ بھی ہے۔ کئی مطالعات سے ثابت ہے کہ پاکستان کے دونوں بڑے ڈیموں میں مٹی جمع ہونے سے ان کی افادیت میں تیس فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے۔ اسی لئے ملک کو فوری طور پر نئے آبی ذخائر کی ضرورت ہے۔

گزشتہ عشرے میں پاکستان میں ڈیم کو واحد شروع کئے جانے والا منصوبہ دیامیر بھاشا ڈیم ہے جس پر کام شروع کرنے کی افتتاحی تقریب اپرین دوہزار چھ میں ہوئی تھی۔ لیکن اب تک وہاں کئی مطالعات کئے جارہے ہیں اور مزید ایک اینٹ بھی نہیں رکھی گئی ہے۔

گزشتہ چھ برسوں سے قوم کو یہی بتایا جارہا ہے کہ ورلڈ بینک نے اس پروجیکٹ کی فنڈنگ کی حامی بھرلی ہے۔ پھر دو ماہ قبل اچانک یہ معلوم ہوا کہ ورلڈ بینک نے کبھی اس منصوبے پر فنڈنگ کی بات نہیں کی تھی اور اس معاملے پر قوم کو گمراہ کیا گیا تھا۔

عالمی بینک کی جانب سے صاف جواب ملنے کے بعد اب بہت کم امکانات رہ گئے ہیں کو کوئی ترقیاتی ایجنسی چودہ ارب ڈالر کی خطیر رقم فراہم کرے گی۔

یہ رپورٹ اب ہمیں معاملے کی نزاکت اور نئے ڈیموں کی ضرورت کا احساس دلارہی ہے۔

خواہ دریائی ڈیلٹا میں سمندری پانی کی دراندازی ہو، ساحلی زراعت کا تحفظ ہو یا مینگرووز کو بچانا ، ان سب کے لئے اور پانی کی باقاعدہ اور مسلسل فراہمی کے لئے اشد ضروری ہے کہ نئے فوری طور پر نئے ڈیمز تعمیر کئے جائیں۔ توقع ہے کہ حکومت اس رپورٹ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے گی۔

موسموں کے شدید اور بگڑتے ہوئے مزاج وہ دوسرا اہم چیلنج ہے جو اس رپورٹ میں درج ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں ملک نے موسمی شدت کے ہر پہلو کا مشاہدہ کیا ہے۔ جن میں سیلاب کے علاوہ، خشک سالی، اور بارشیں وغیرہ شامل ہیں۔

ملک اب تک حالیہ سیلاب کے اثرات جھیل رہا ہے۔ سیلابوں کے ساتھ ساتھ ملک میں پانی کی قلت بیس فیصد تک جاپہنچی ہے۔

شدید موسموں سے نمٹنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ فصلوں کیلئے ایسے بیج تیار کئے جائیں جو اس طرح کی شدید تبدیلیاں جھیل سکیں۔ موسمیاتی شدت سے بارانی اور نیم بارانی علاقے کئی طرح سے متاثرہ ہوں گے اور حیرت انگیز طور پر زراعت کا بڑا عمل بھی یہی انجام پاتا ہے۔ یہاں کی مٹی میں ایسی ماحولیاتی تبدیلیاں سہنے کی سکت نہیں۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ فصلوں اوربیجوں کی سطح پر کام کیا جائے۔

بدقسمتی سے پاکستان کا اہم فصلوں کے لئے بیجوں کی تیاری کو خاطر خواہ اہمیت نہیں دی ہے۔ ضرورت ہے کہ فصلوں کی ایسی اقسام تیار کی جائیں جو بدلتے ہوئے ماحول اور آب وہوا سے ہم آہنگ ہوکر فروغ پاسکیں۔

یہ ایسا میدان ہے جس پر وفاق اور صوبوں کو اٹھارہویں ترمیم کے قانونی فریم ورک میں رہتے ہوئے  سر جوڑ کر غور کرنا چاہئے۔

زراعت کے شعبے میں نت نئی ٹیکنالوجی متعارف کرانا بھی ضروری ہے ۔

عالمی تپش کے اثرات کو کم کرنے کیلئے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ جنگلات کا تحفظ کیا جائے۔ ملک کے رقبے کے لحاظ سے جنگلات کی تعداد بہت ہی کم ہے جبکہ پاکستان کے دس فیصد رقبے پر جنگلات ہونے چاہئیے۔

دنیا بھر میں ماحولیاتی اور آب و ہوا میں تبدیلی سے پیدا ہونے والے مسائل کے حل کے لئے بہت کچھ ہورہا ہے۔ ضرورت ہے کہ پاکستان صرف ان تجربات سے فائدہ اٹھائے اور انہیں مقامی طور پر استعمال کرے۔ ورنہ غذائی قلت اور غربت دورکرنے کے خواب محض خواب ہی رہیں گے۔  احمد فراز خان

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں