کراچی: پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا ہے کہ غیر منتخب لوگوں کے دباؤ پر صوبائی اسمبلی کے منتخب نمائندوں کی جانب سے متفقہ طور پر پاس کیے گئے اقلیتوں کے تحفظ کے بل کو واپس لینے سے پریشان کن مثال قائم ہوگی۔

ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ(پائلر)کی جانب سے‘ پاکستان میں شہری آزادایوں کو درپیش چیلنجز‘ کے عنوان کے تحت تقریب منعقد کی گئی، جس میں معروف شخصیات نے سندھ اسمبلی کی جانب سے حال ہی میں پاس کیے گئے جبری مذہب کی تبدیلی سے متعلق بل پر دلائل دیئے۔

بل کی کچھ شقوں کو علمائے اکرام کی مخالفت پرواپس لینے سے متعلق معاملات کی نشاندہی سمیت تمام معاملات پر مقررین کی جانب سے تفصیلی بحث کی گئی۔

یہ بھی پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی: سندھ حکومت کا بل پر نظرثانی کا فیصلہ

سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ گورنر سندھ کے دستخط سے پہلے بل کو واپس لینا اچھا قدم نہیں، قانون سازوں کو گورنر کے دستخط تک انتظار کرنا چاہئیے، ان کی دستخط کے بعد قانون ساز بل میں ضروری ترامیم کریں۔

فرحت اللہ بابرکا کہنا تھا کہ مذہبی حلقوں کو بل میں شادی کی عمر کا تعین کرنے پر اعتراض ہے، کیوں کہ بل میں کہا گیا ہے کہ 18 سال سے پہلے شادی کرنا غیر آئینی اور نامناسب ہے۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(ایس ایچ آر سی پی) کی چیئرپرسن ریٹائرڈ جسٹس ماجدہ رضوی نے اپنے خطاب میں کہا کہ بل سے عمر کے تعین کو نکالنا قانون کو اپنے دانتوں سے محروم کرنے کے مترادف ہوگا۔

مزید پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی کا بل: 13 ارکان اسمبلی کی زندگیوں کو خطرہ

ان کا کہنا تھا کہ جب بھی حکام قانون پر عملدرآمد کرانے میں ناکام ہوئے ہیں سول سوسائٹی سمیت سماج کے دیگر اسٹیک ہولڈرز نے اپنا فرض سمجھ کر اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔

ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن کا کہنا تھا کہ انہیں پتہ نہیں کہ حکومت مذہبی علماء کی باتیں کیوں سن رہی ہے، انہوں نے دلیل دیتے ہوئے کہا شاید حکومت انتخابات کی وجہ سے ان کی سن رہی ہو لیکن ان کے پاس بڑا ووٹ بینک نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی کے بل میں ترامیم پر ہندو کونسل کو اعتراض

ملک میں مضبوط قوانین بنانے پر زور دیتے ہوئے صحافی مظہرعباس نے کہا کہ ملک میں ہتک عزت کے قوانین کمزور ہیں، جنہیں مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں مقبول اورغیر مقبول لوگوں پربھارت کی خفیہ ایجنسی رسرچ اینڈ اینالاسز ونگ( را) کے لیے کام کرنے کے الزامات لگاکر ان کے خلاف جھوٹے مقدمات بنائے گئے، ان اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ ملک میں ہتک عزت کے قوانین کتنے کمزور ہیں۔

انہوں نے صحافیوں پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ صحافی قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز سے اپنے مطلب کی اصطلاحات نکالتے ہیں، صحافی یہ نہیں جانتے کہ جس شخص پرالزام لگایا گیا وہ غلط یا صحیح ہے، اس لیے یہ بہتر ہوگا کہ صحافی اس شخص کے خلاف‘ملزم یا مشکوک‘ کا لفظ استعمال کریں، اس سے صحافی کی ساکھ بھی محفوظ رہے گی اورمتاثرہ شخص کی زندگی بھی محفوظ رہے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Nadeem Dec 30, 2016 07:29pm
میرا مشورہ مانیں علماء کرام کو صرف مسجد تک رکھیں سٹیٹ اور سیاست میں علماء کا موجود ہونا امن کے لیے شدید خطرہ ہے اور رہے گا۔۔۔۔۔۔