کراچی: مذہب کی جبری تبدیلی سے متعلق بل سندھ اسمبلی سے پاس ہوگیا جس کے تحت زبردستی مذہب تبدیل کرانے پر 5 سال تک قید کی سزا ہوسکے گی۔

سندھ اسمبلی میں سندھ کرمنل لاء (اقلیتوں کا تحفظ) بل مسلم لیگ فنکشنل سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی نند کمار گولکانی نے پیش کیا۔

بل کے مطابق بالغ شخص کو مذہب تبدیل کرنے پر غور کے لیے 21 دن کا وقت دیا جائے گا جبکہ 18سال سے کم عمر پر مذہب کی تبدیلی قابل تعزیر جرم ہوگا۔

بل میں یہ بھی کہا گیا کہ مذہب کی جبری تبدیلی میں سہولت کاری کا کردار ادا کرنے والے شخص کو بھی پانچ برس تک قید کی سزا ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: ایک ہندو لڑکی کی بپتا

واضح رہے کہ اندرون سندھ میں رہنے والے ہندو برادری کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

رواں برس فروری میں سندھ اسمبلی میں ہندو برادری کی شادی کو رجسٹر کرنے کے حوالے سے 'ہندو میرج' بل منظور بھی منظور کیا گیا تھا۔

سینیئر پیپلز پارٹی رہنما اور صوبائی وزیر برائے قانون اور پارلیمانی امور نثار کھوڑو نے بل ایوان میں پیش کیا تھا۔

منظور شدہ بل کے متن کے مطابق دلہا اور دلہن کی عمر 18 سال سے کم نہیں ہوسکتی۔

بل کے مطابق شادی کی رجسٹریشن یونین کونسل میں کرانی لازمی قرار دی گئی اور جو جوڑا رجسٹریشن نہیں کرائے گا ،اس پر ایک ہزار روپے جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: مذہب کی جبری تبدیلی پر ہندو برادری خوفزدہ

اس کے علاوہ رواں برس چترال میں سیکڑوں مقامی رہائشیوں کا کالاش قبیلے کے افراد سے اس وقت تصادم ہوگیا تھا جب ایک نوجوان لڑکی کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ اسے جبراً اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔

کالاش میں سرگرم سماجی رہنما لیوک رحمت نے بتایا تھا کہ وادی بمبوریت میں کالاش قبیلے کے ایک گھر پر حملہ بھی کیا گیا۔

رحمت لیوک کے مطابق یہ وہ گھر تھا جہاں وہ لڑکی اپنے تبدیلی مذہب کے حوالے سے پولیس کو بیان دینے کے لیے آئی تھی۔

رحمت لیوک کا کہنا ہے کہ کالاش قبیلے کے افراد کی تعداد صرف چار ہزار کے لگ بھگ ہے اور نوجوانوں میں اسلام قبول کرنے کی شرح میں اضافے کو دیکھتے ہوئے اس قبیلے کی روایات کو بچانے کے لیے سماجی کارکن مہم بھی چلا رہے ہیں۔


تبصرے (0) بند ہیں