اسلام آباد: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں ملازمہ تشدد کیس پر ہونے والی تین رکنی بنچ کی سماعت میں ڈی آئی جی اسلام آباد نے چالان پیش کردیا.

یاد رہے کہ 18 جنوری کو ہونے والی کیس کی آخری سماعت میں ڈی آئی جی اسلام آباد نے طیبہ تشدد سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی تھی اور مکمل تحقیقات کے لیے مزید ایک ہفتے کا وقت طلب کیا تھا، ڈی آئی جی کا کہنا تھا کہ انہیں ڈی این اے رپورٹ کا انتظار ہے۔

ڈی آئی جی کی جانب سے چالان پیش کیے جانے کے بعد چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس مقدمے کو گہرائی سے سننا چاہتے ہیں اور پھر دیکھیں گے کہ آیا ملزمہ خاتون اور اس کے شوہر کے خلاف مجرمانہ مقدمہ چلایا جائے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طیبہ پر تشدد کرکے جرم کا ارتکاب کیا گیا، چیف جسٹس

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ ملزمہ خاتون کے شوہر واقعتاً ایک جوڈیشل افسر ہیں، ہم دیکھیں گے کہ عام قانون کے تحت اس مقدمے کو نمٹایا جائے یا غیر معمولی قدم اٹھایا جائے، اہم معاملہ یہ ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کے لیے قانون سازی کی جائے۔

عدالت میں این جی اوز کی جانب دلائل دیتے ہوئے عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ ہر تیسرے گھر میں بچیاں گھریلو ملازمہ ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ کسی اور بچی کے ساتھ ایسا نہ ہو۔

انہوں نے سابقہ کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ساتھیوں کے دباؤ پر معاملات کو تبدیل کردیا جاتا ہے، طیبہ کے کیس میں بھی اس خاتون کے خلاف کوئی تفتیش نہیں کی گئی جو گھروں کو بچیاں فراہم کرتی ہے، بچیوں کو غلامی میں دیا جارہا ہے مگر اس بات کی کوئی تفتیش نہیں کی جارہی۔

مزید پڑھیں: طیبہ تشدد کیس پڑوسیوں کی 'سازش' ہے، اہلیہ جج

عاصمہ جہانگیر کے مطابق اس حوالے سے بہت سے اقدامات ایسے ہیں جنہیں اٹھانا عدالت کا کام نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو اس حوالے سے اقدامات اٹھائے جانے چاہیئیں۔

عاصمہ جہانگیر کا مطالبہ تھا کہ ملزمان کو سزا دی جانی چاہیئے۔

انہوں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ اس کیس سے ثابت ہوتا ہے کہ ملزم کو ماتحت عدالت سے پسِ پردہ تحفظ فراہم کیا گیا۔

جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ گر آج طیبہ کے کیس میں ہم نے اختیارات سے تجاوز کیا تو کل اور بھی درخواستیں آجائیں گی۔

جس کے بعد کیس کی سماعت کو دو ہفتے کے لیے ملتوی کردیا گیا۔

ملزمان کے خلاف ناقابلِ ضمانت دفعات شامل

دوسری جانب عدالت نے طیبہ پر تشدد میں ملوث مرکزی ملزمان ماہین ظفر اور ان کے شوہر ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج خرم علی خان کے خلاف کیس میں تعزیرات پاکستان کے تحت ناقابل ضمانت دفعات شامل کردیں۔

عدالت کے مطابق ان دفعات کے تحت ملزمان کو ضمانت کا تحفظ حاصل نہیں رہے گا، اور ضمانت کے حوالے سے قانون اپنا راستہ خود بنائے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک روز قبل سامنے آنے والی پولیس تحقیقات میں ایڈیشنل سیشن اینڈ ڈسٹرکٹ جج اور ان کی اہلیہ کو معاملے میں مشتبہ قرار دیا گیا تھا۔

طیبہ تشدد کیس—کب کیا ہوا؟

کمسن ملازمہ طیبہ پر تشدد کا معاملہ گذشتہ ماہ کے آخر میں اُس وقت منظرعام پر آیا تھا جب تشدد زدہ بچی کی تصویریں سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تھیں۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ و سیشن جج راجہ خرم علی خان کے گھر سے بچی کی برآمدگی کے بعد پولیس نے انھیں اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔

بعد ازاں 3 جنوری کو مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن ملازمہ کے والد ہونے کے دعویدار شخص نے جج اور ان کی اہلیہ کو 'معاف' کردیا تھا۔

مزید پڑھیں: طیبہ کے 'والدین' کی شناخت کیلئے ڈی این اے ٹیسٹ کا حکم

بچی کے والدین کی جانب سے راضی نامے کی رپورٹس سامنے آنے کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے کم سن ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے بچی اور اس کے والدین کو عدالت پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔

اس کے بعد سے پولیس طیبہ کی تلاش میں سرگرداں تھی اور اس نے طیبہ کی بازیابی کے لیے مختلف شہروں میں چھاپے مارے تھے تاہم وہ اسلام آباد سے ہی بازیاب ہوئی، جسے بعدازاں پاکستان سوئیٹ ہوم کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں