کراچی کے علاقے سپر ہائی وے پر پولیس سے مقابلے میں 6 مشتبہ دہشت گردوں کی ہلاکت کی اطلاع سامنے آئی ہے جبکہ مارے گئےملزمان سے بڑی تعداد میں اسلحہ بھی برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق سپرہائی وے پر گڈاپ سٹی پولیس کی حدود میں بقائی میڈیکل یونیورسٹی کے قریب ایس ایس پی ملیر راؤ انوار متشبہ دہشت گردوں کی موجودگی کی خفیہ اطلاع پر نفری کے ساتھ پہنچے اور انہوں نے وہاں قائم ایک پولٹری فارم کا محاصرہ شروع کیا۔

پولیس کو محاصرہ کرتا دیکھ کر مبینہ دہشت گردوں نے فائرنگ کردی جس کے بعد پولیس نے بھی جوابی کارروائی کی جبکہ پولیس کی مزید نفری بھی طلب کی گئی۔

فائرنگ کے تبادلے میں 6 مشتبہ دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'جعلی پولیس مقابلے'پر راؤ انوار کیخلاف مقدمےکاحکم

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے مطابق ہلاک ہونے والے دہشت گردوں کا تعلق کالعدم القاعدہ برصغیر، کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور تحریک طالبان سوات گروپ سے ہے جو شہر میں دہشت گردی کا منصوبہ بنا رہے تھے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والا ایک دہشت گرد پشاور کے آرمی پبلک اسکول حملے میں بھی ملوث تھا اور اس کی جیب سے شناختی کارڈ بھی ملا ہے تاہم شناخت کی تصدیق کا عمل جاری ہے۔

ملزمان سے بڑی تعداد میں اسلحہ بھی قبضہ میں لیا گیا جبکہ لاشوں کو گڈاپ تھانے سے ملزمان کی شناخت کے لیے سرد خانے منتقل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ اے ڈی خواجہ نے سندھ پولیس میں تقرریاں اور تبادلے کرتے ہوئے 6 جنوری کو 4 ماہ سے معطل راؤ انوار کو دوبارہ سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) ملیر تعینات کیا تھا۔

ایس ایس پی ملیر کا چارج ملنے کے بعد راؤ انوار کا یہ پہلا بڑا انکاؤنٹر ہے۔

راؤ انوار کو 4 ماہ قبل متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے رکن سندھ اسمبلی خواجہ اظہار الحسن کو گرفتار کرنے پر معطل کیا گیا تھا، جنہیں بعد ازاں بحال تو کردیا گیا تھا مگر کسی عہدے پر تعینات نہیں کیا گیا تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے انکاؤنٹرز

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار
ایس ایس پی ملیر راؤ انوار

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اپنے پولیس مقابلوں کے حوالے سے مشہور ہیں،19 جولائی 2016 کو راؤ انوار نے صوبہ سندھ کے دارالحکومت کراچی میں سپر ہائی وے پر قائم کوئٹہ ٹاؤن کے علاقے میں پولیس مقابلے میں کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے 4 'دہشت گردوں' کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

21 اپریل کو ایس ایس پی راؤ انوار نے سپر ہائی وے پر فقیرا گوٹھ میں 3 'دہشت گردوں' کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور ان دہشت گردوں کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے بتایا گیا تھا۔

اسی ماہ کے آغاز میں بھی راؤ انوار نے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں 4 دہشت گردوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا تھا تاہم حیرت انگیز طور پر مرنے والے افراد کو ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں.

اس سے قبل 22 فروری 2016 کو ایک ہی رات کراچی کے مضافاتی علاقوں پپری اور گڈاپ میں 2 مبینہ پولیس مقابلوں میں ایس ایس پی راؤ انوار نے القاعدہ برصغیر اور لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے 12 'عسکریت پسندوں' کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا جبکہ ان مقابلوں میں حیرت انگیز طور پر پولیس مکمل طور پر محفوظ رہی تھی۔

مزید پڑھیں: راؤانوارکی ریکی کرنیوالے 4 مبینہ ملزمان ہلاک

اس سے پہلے ایس ایس پی راؤ انوار نے 27 جنوری 2016 کو صفورا گوٹھ میں خفیہ اطلاع پر کی جانے والے کارروائی میں 4 مبینہ عسکریت پسند ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا اور ہلاک افراد کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے بتایا، تاہم اس شوٹ آؤٹ میں بھی کسی اہلکار کو خراش تک نہیں آئی۔

13 جون 2015 کو بھی ایس ایس پی راؤ انوار نے ملیر کینٹ گیٹ نمبر 5 کے قریب ایک کار اور ایک موٹر سائیکل پر سوار 4 افراد کا انکاؤنٹر کیا تھا، ان افراد کے حوالے سے پولیس افسر نے دعویٰ کیا کہ یہ چاروں افراد ان کی جاسوسی کر رہے تھے، ہلاک ہونے والوں کو دہشت گرد اور کالعدم تنظیم کا کارکن بتایا گیا تھا۔

2 مئی 2015 کو راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے قافلے پر ملیر میں لنک روڈ کے قریب دستی بموں سے حملہ کیا گیا، ان دستی بم حملوں میں راؤ انوار اور ان کے قافلے میں سوار تمام اہلکار مکمل طور پر محفوظ رہے جبکہ ایس ایس پی کی قیادت میں اہلکاروں نے 5 'حملہ آوروں' کو ہلاک کر دیا تھا۔

2014 میں 26 اکتوبر کو اسٹیل ٹاؤن میں ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی قیادت میں پولیس نے ایک مبینہ مقابلے کے دوران 9 افراد کو ہلاک کیا، ان ہلاک افراد کو القاعدہ اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کا دہشت گرد بتایا، جبکہ اس مقابلے میں بھی پولیس اہلکار مکمل طور پر محفوظ رہے تھے۔


تبصرے (0) بند ہیں