اسلام آباد: وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان نے مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں مبینہ گستاخی پر طالب علم کی ہلاکت کے واقعے کو 'وحشیانہ قتل' قرار دے دیا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ 'پاکستان کے طول و عرض سے اس واقعے کی مذمت کی جارہی ہے اور یہ بے حسی سے کیا جانے والا قتل ہے'۔

انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ اس واقعے میں جو لوگ ملوث ہیں وہ اسے کسی نہ کسی طریقے سے مذہب سے جوڑ رہے ہیں لیکن مذہب اسلام تو انصاف کے حوالے سے ایک ماڈل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مبینہ گستاخی پر طالبعلم کی ہلاکت، وزیراعظم کی مذمت

چوہدری نثار نے کہا کہ اسلام میں تو کسی غیر مسلم سے بھی ظلم و زیادتی کی اجازت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اگر کسی پر لگایا گیا الزام درست بھی ہے تو اس کا ایک طریقہ کار موجود ہے، ایسا تو وہاں ہوتا ہے جہاں جنگل کا قانون ہو'۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ اس واقعے پر صوبائی حکومت نے عدالتی تحقیقات کا جو فیصلہ کیا ہے وہ بالکل درست ہے اور ہمیں عدالتی تحقیقات کا انتظار کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس واقعے سے بہت ہی غلط پیغام گیا ہے کہ کس طرح اس ملک میں بعض لوگ اسلام کے نام کا غلط استعمال کررہے ہیں۔

مزید پڑھیں: مشعال پر لگائے گئے الزامات غلط ہیں، بہن

خیال رہے کہ 13 اپریل کو مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشعال خان کو یونیورسٹی کے طلبا نے توہین مذہب کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا جبکہ فائرنگ کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوئی تھی۔

گستاخانہ مواد

سوشل میڈیا پر گستاخانہ مواد کے حوالے سے چوہدری نثار نے کہا کہ فیس بک کے وائس پریزیڈنٹ اس معاملے پر مذاکرات کے لیے آئندہ ماہ پاکستان آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ سوشل میڈیا سے زیادہ تر قابل اعتراض مواد ہٹانے میں کامیاب رہی ہے تاہم ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یہ مواد دوبارہ سوشل میڈیا پر نہ آئے۔

چوہدری نثار نے کہا کہ اس سلسلے میں ہمیں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا تعاون درکار ہے، پاکستان اس حوالے سے ایک کانفرنس کے انعقاد کے لیے او آئی سی کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے اور امید ہے کہ رمضان کے بعد اس کانفرنس کا انعقاد ہوگا۔

کلبھوشن کا معاملہ

وزیر داخلہ نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کوئی عام بھارتی شہری نہیں تھا بلکہ وہ ایک جاسوس تھا یہی وجہ ہے کہ بھارت کو اس تک قونصلر رسائی نہیں دی گئی۔

انہوں نے کہا کہ بھارت میں چھوٹے موٹے مسئلے پر پھنسنے والے پاکستانیوں تک قونصلر رسائی نہیں دی جاتی یہی وجہ ہے کہ ہم نے بھی بھارت کی درخواست مسترد کی۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کی سزا کے بعد کیا ہوگا؟

چوہدری نثار نے نیپال سے لاپتہ ہونے والے کرنل (ر) حبیب ظاہر کے حوالے سے کہا کہ اس معاملے کی گتھی سلجھانےمیں چند دن لگیں گے۔

انہوں نے کہا کہ حبیب ظاہر کو دھوکے کے ذریعے کسی تیسرے ملک میں بلایا گیا اور اس حوالے سے نیپال کی حکومت بھرپور تعاون کررہی ہے۔

اوریجن کارڈ کا نام تبدیل

وزیر داخلہ نے کہا کہ 'اوریجن کارڈ' کے اجراء پر گزشتہ ڈیڑھ سال سے پابندی عائد تھی تاہم اب فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس کا از سر نو اجراء کیا جائے گا۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ اوریجن کارڈ میں بعض تبدیلیاں کرنے کے بعد اس کا دوبارہ اجراء شروع کیا جارہا ہے اور اب اس کا نام 'ٹیمپریری ریزیڈنس کارڈ' یعنی 'عارضی قیام کا کارڈ' ہوگا۔

انہوں نے وضاحت کی کہ اگر کسی غیر ملکی خاتون کی شادی پاکستانی شہری سے ہوتی ہے تو انہیں پہلے ایک سال کا ویزہ دیا جائے گا جس میں پانچ سال تک کی توسیع ہوسکے گی اور یہ سیکیورٹی کلیئرنس سے مشروط ہوگا۔

مزید پڑھیں: سیکیورٹی کلیئرنس کا انتظار: 1 لاکھ 75ہزار شناختی کارڈ تاحال بلاک

وزیر داخلہ کے مطابق پانچ سال کے بعد وہ خاتون 'عارضی قیام کے کارڈ' کے حصول کی اہل ہوسکیں گی جبکہ اس کی شرائط وہی ہوں گی جو پہلے پاکستان اوریجن کارڈ کے لیے ہوتی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میں نے لینڈنگ کارڈز کے اجراء پر بھی پابندی عائد کردی ہے اور تمام سیکیورٹی و سول اداروں کو ہدایات جاری کردی ہیں کہ آئندہ ایئرپورٹ پر کسی کو لینڈنگ کارڈ جاری نہ کیے جائیں'۔

بلاک شدہ شناختی کارڈز

چوہدری نثار نے کہا کہ گزشتہ کئی ہفتوں سے بلاک شدہ شناختی کارڈز کے مسئلے پر سیاست کی جارہی ہے، یہ صرف شناختی کارڈ کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان کی شہریت کا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ کسی پنجابی یا پشتوں کا مسئلہ نہیں، کسی بھی ملک کی شہریت لینا انتہائی مشکل مرحلہ ہوتا ہے چاہے وہ امریکا یا برطانیہ ہو یا کوئی ترقی پذیر ملک ہو۔

وزیر داخلہ نے کہا کہ جن لوگوں کے شناختی کارڈز بلاک کیے گئے ان کے پاس 60 دن کا وقت ہے کہ وہ مقامی نادرا سینٹرز جائیں اور اپنی شہریت کا ثبوت پیش کریں جس کے بعد ان کے شناختی کارڈ مستقل طور پر بحال کردیے جائیں گے۔

شہریت کو ثابت کرنے کے لیے درکار دستاویز کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1978 سے پہلے کا تصدیق شدہ اراضی ملکیتی سرٹیفکیٹ، 1978 سے پہلے کا اجراء شدہ ڈومیسائل یا اس کی کاپی، محکمہ مال کی جانب سے تصدیق شدہ شجرہ نصب، اپنے یا اپنے کسی رشتے دار کی سرکاری ملازمت کا سرٹیفکیٹ جو 1990 سے پہلے کا ہو، کوئی تعلیم اسناد جو 1978 سے پہلے کی ہوں، 1978 سے پہلے کا پاسپورٹ اور شناختی کارڈ، 1978 سے پہلے کا اسلحہ، ڈرائیونگ یا کوئی اور لائسنس دکھاکر شہریت کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جو پاکستانی نہیں اس کے پاس شناختی کارڈ اور پاسپورٹ نہیں ہونا چاہیے، پشتونوں کے نہیں افغان باشندوں کے کارڈ اور پاسپورٹ کینسل کیے، پشتون بھائی پاکستان کا ستون ہیں،شناختی کارڈ کے مسئلے کو پشتون مخالف بنانا افسوسناک ہے'۔

غیر ملکی این جی اوز

غیر ملکی این جی اوز کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے چوہدری نثار نے کہا کہ یہ ایک انتہائی حساس معاملہ تھا کیوں کہ کئی ملکوں نے یہ فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ صرف این جی اوز کے ذریعے ہی پاکستان میں فنڈنگ کریں گے جبکہ ہمارے لیے ضروری تھا کہ غیر ملکی این جی اوز کی سرگرمیوں کو منظم کریں۔

انہوں نے کہا کہ این جی اوز کو کوئی بھی ملک مادر پدر آزادی نہیں دے سکتا اور یہ ہمارے لیے بھی ممکن نہیں تھا۔

چوہدری نثار کے مطابق اس وقت 62 این جی اوز کی باضابطہ رجسٹریشن ہوچکی ہے اور انہیں ایک خاص ضابطہ کار کے تحت کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے جبکہ 60 این جی اوز باقی ہیں۔


تبصرے (0) بند ہیں