اسلام آباد : وزیراعظم نواز شریف نے عبد الولی خان یونیورسٹی میں طالبعلم کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی میں بے حس ہجوم کی طرف سے طالبعلم کے قتل پر بے حد دکھ ہوا۔

وزیر اعظم ہاوس سے جاری ہونے والے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے والوں کو ریاست کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں : گستاخی کا الزام، ساتھیوں کے تشدد سے طالبعلم ہلاک: پولیس

ملوث افراد کے خلاف کارروائی کے حوالے سے وزیر اعظم نے کہا کہ واقعہ کے ذمہ داروں کی گرفتاری کے لیے پولیس کو ہدایت کردی ہے۔

قانون پر عملدرآمد کی تلقین کرتے ہوئے ان کا بتانا تھا کہ قوم برداشت اور قانون کی حکمرانی کے فروغ کے لیے اتحاد کا مظاہرہ کرے، اس جرم کی مذمت میں پوری قوم متحد ہو۔

مریم نواز کی مذمت

علاوہ ازیں وزیر اعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی طالب علم کی ہلاکت کی مذمت کی۔

سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ مشعال کے قتل کی ویڈیو دیکھ کر مجھے شدید دھچکا لگا۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون ہاتھ میں لینا اور ہجوم کا ازخود فیصلہ کرنا رجعت پسندی اور بیمار ذہنیت کی نشاندہی کرتی ہے۔

خیال رہے کہ دوروز قبل مردان کی عبدالولی خان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغ عامہ کے طالب علم مشعال خان کو یونیورسٹی کے طلبا نے توہین رسالت کے الزام میں تشدد کا نشانہ بنایا تھا جبکہ فائرنگ کے نتیجے میں ان کی ہلاکت ہوئی تھی۔

بعد ازاں یونیورسٹی نے شعبہ ابلاغ عامہ کے تین طالب علموں عبداللہ، محمد زبیر اور مشعال کو عارضی طور پر معطل کرتے ہوئے تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دینے کا نوٹی فیکیشن جاری کیا تھا جبکہ نوٹی فیکشن پر 13 اپریل کی تاریخ درج تھی جس دن مشعال کو قتل کردیا گیا تھا۔

عبدالولی خان یونیورسٹی کے فوکل پرسن فیاض علی شاہ سے جب پوچھا گیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے مقتول طالب علم کو کیوں معطل کیا، تو ان کا کہنا تھا کہ 'غلطی سے مشعال کا نام نوٹی فکیشن میں شامل ہوا

دوسری جانب لاہور سے تعلق رکھنے والے سول سوسائٹی کے ایک ادارے نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے مبینہ گستاخی کے الزام پر مردان یونیورسٹی میں طلبہ کے تشدد سے طالب علم کی موت کے واقعے کا ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

یاد رہے کہ ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) مردان ڈاکٹر میاں سعید احمد نے کہا تھا کہ تھانہ شیخ ملتون میں درج ہونے والی ایف آئی آر میں 20 ملزمان کو نامزد کیا گیا اور مقدمے میں دہشت گردی، قتل اور اقدام قتل سمیت 7 دفعات شامل کی گئیں۔

مردان پولیس نے ایف آئی آر میں نامزد 8 ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کر چکی ہے۔

مزید پڑھیں : مردان یونیورسٹی واقعہ، عدالتی تحقیقات کی منظوری

پولیس نے ایف آئی آر میں نامزد مزید ملزمان کی گرفتاری کے لیے ان کے گھروں پر چھاپے مارے اور متعدد افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کیا۔

وزیراعلی خیبرپختونخوا پرویز خٹک بھی عبدالولی خان یونیورسٹی میں طالب علم کی ہلاکت کی جوڈیشل انکوائری کے لیے سمری پر دستخط کر چکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں

ahmak adami Apr 15, 2017 03:50pm
Do not direct police to arrest the people involved in this lynching. Get them punished. These people have are joking with nation for their vest interests. they have tried to murder our integrity.