اسلام آباد: اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری طاہر شہباز کی سربراہی میں اسکروٹنی کمیٹی نے قومی احتساب بیورو (نیب) کے 100 سے زائد سینئر عہدیداروں کو شوکاز نوٹس جاری کردیا، جنھیں ممکنہ طور پر وائٹ کالر جرائم سے نمٹنے کے لیے مطلوبہ تجربہ نہ ہونے پر ہٹایا جائے گا۔

ڈان کو نیب کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ ڈائریکٹر جنرل کی پوسٹ پر ذمہ داریاں نبھانے والے چند افسران سمیت عہدیداروں کو جاری نوٹسز میں ایک ہفتے کے اندر جواب داخل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

ان عہدیداروں کے خلاف سپریم کورٹ کے حکم پر انکوائری کی جارہی ہے جس کے لیے اسکروٹنی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی۔

اسٹیبلشمنٹ سیکریٹری نے گزشتہ ماہ سپریم کورٹ کی جانب سے لیے گئے ازخود نوٹس پر اپنی اپنی رپورٹ پیش کی تھی۔

نیب کی جانب سے کمیٹی کے سامنے پیش کی گئی رپورٹ میں ان 100 افسران کے تفتیش کے میدان میں تجربے کی کمی کا انکشاف ہوا تھا۔

تاہم سیکریٹری نے عدالت کو کہا تھا کہ قانونی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ان عہدیداروں کو شوکاز نوٹس جاری کردینا چاہیئے تاکہ ہر کسی کو انفرادی طور پر اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع مل سکے۔

سیکریٹری کی رپورٹ کے مطابق 4 ڈائریکٹر جنرل حسنین احمد (موجودہ ڈی جی ہیڈ کوارٹرز)، زبیر شاہ (ڈی جی آپریشنز)، الطاف باوانی (ڈی جی کراچی) اور ریٹائرڈ بریگیڈیئر فاروق نصیر اعوان (ڈی جی خیبرپختونخوا) بھی موجودہ پوسٹ کے متعلقہ معیار پر پورا نہیں اترتے۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ : نیب کے 4 اعلیٰ افسران کی تقرری کالعدم

رپورٹ کے مطابق نیب کے ڈی جی ہیڈ کوارٹرز کو 2004 میں 19ویں گریڈ میں تعینات کیا گیا، اس سے قبل وہ پنجاب میں کمیونیکیشنز اینڈ ورکس اینڈ ویٹرنری ڈپارٹمنٹ میں ایس ڈی او کے طور پر کام کررہے تھے۔

انھیں اپریل 2013 میں ڈی جی تعینات کیا گیا اور 21 گریڈ بھی دیا گیاجبکہ انھیں ڈسپلنری بنیادوں پر فوج سے خارج کرنے کو چھپانے کے الزامات کا بھی سامنا ہے۔

ڈی جی نیب آپریشنز کو 2004 میں اُس وقت 19ویں گریڈ میں تعینات کیا گیا تھا جب وہ خیبر پختونخوا کے ایک سرکاری ڈگری کالج میں استاد کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے تاہم انھیں اپریل 2013 میں گریڈ 21 سے نواز کر ڈی جی بنا دیا گیا۔

ڈی جی کراچی نے 2004 میں 19 گریڈ کے افسر کی حیثیت سے نیب میں شمولیت اختیار کی اور اپریل 2013 میں انھیں ترقی دی گئی۔

وہ نیب میں شامل ہونے سے قبل بورڈ آف انوسٹمنٹ میں کام کررہے تھے۔

ڈی جی کے پی کو پاک فوج کی انجینئرنگ برانچ سے گریڈ 20 میں 2012 میں تعینات کیا گیا تھا اور اپریل 2013 میں انھیں ڈی جی بنا کر گریڈ 21 دیا گیا تھا۔

نیب ایمپلائز ٹرمز اینڈ کنڈیشنز آف سروس 2002 کے مطابق تفتیش، انکوائری، تحقیق، قانونی معاملات، ٹریننگ، آگاہی، میڈیا اور مالی جرائم کے میدان میں تفتیش کے لیے 17 گریڈ کے ڈی جی کے عہدے کے لیے 12 سالہ تجربہ لازمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: نیب میں غیر قانونی تقرریاں، سپریم کورٹ کا ازخود نوٹس

سپریم کورٹ کے 31 مارچ کے احکامات کے مطابق نیب کے چند اعلیٰ افسران کو ‘متعلقہ تجربے’ پر پورا نہ اترنے پر گھر بھیج دیا گیا۔

احکامات کے مطابق ‘میجر ریٹائرڈ سید برہان علی، میجرریٹائرڈ طارق محمد، میجرریٹائرڈ شبیر احمد اور مس عالیہ رشید نامی افسران نیب میں متعلقہ پوسٹ رکھنے کے اہل نہیں ہیں'۔

ڈی جی راولپنڈی ناصر اقبال کی تعیناتی بھی مشکوک ہوگئی ہے کیونکہ انھیں عدالت کے حکم پر ‘متعلقہ تجربے’ پر پورا نہ اترنے والے چار ڈائریکٹر جنرل کو فارغ کیے جانے کے بعد تعینات کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں نیب کے ترجمان نواز علی سے رابطہ کرنے کی کئی بارکوشش کی گئی لیکن وہ موقف دینے کے لیے دستیاب نہ ہوئے۔


یہ رپورٹ 26 اپریل 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Apr 26, 2017 05:55pm
جب کام نہیں آتا تو نااہلوں کو سیٹوں پر پراجمان رہنے اور مفت کی روٹیاں توڑنے کا کوئی حق نہیں، اس طرح کے افسران کی وجہ سے اربوں اور کھربوں روپے کے غبن میں ملوث ملزمان باعزت بری ہوجاتے ہیں۔۔اگر یہ خود استعفیٰ دےدیں تو ٹھیک نہیں تو انکے نام مشتہر کرکے برطرف کردینا چاہیے۔۔۔خیرخواہ