اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی احتساب بیورو (نیب) میں مبینہ طور پر غیر قانونی تقرریوں پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے چیئرمین نیب اور اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کو جولائی میں ایک گمنام خط موصول ہوا تھا جس میں نیب میں ہونے والی مبینہ طور پر غیر قانونی تقرریوں پر کارروائی کرنے کی درخواست کی گئی تھی، جس کے بعد سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت اس پر از خود نوٹس لیا۔

سپریم کورٹ نے نیب کے چیئرمین چوہدری قمر زمان اور اٹارنی جنرل اشتر اوصاف کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان الزامات پر جواب طلب کرلیا ،رواں ماہ کے آخر میں اس کیس کی سماعت کی جائے گی۔

خط میں عدالت کی ان تعیناتیوں کی جانب توجہ مبذول کروائی گئی جن میں 16 سابق فوجی افسران کی ڈیپوٹیشن پر گریڈ 20 اور 21 میں تقرری شامل ہے جبکہ مجموعی طور پر 32 افسران اعلی ترین عہدوں پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

خط میں نیب پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ نیب نے نہ صرف بنیادی سروس اسٹرکچر اور سروس قوانین اسکیم کی خلاف ورزی کی بلکہ خلاف ضابطہ تقرری کرکے سپریم کے فیصلے کی حکم عدولی بھی کی ہے۔

1999 قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 28 اور نیب کے 2002 کے شرائط و ضوابط کا حوالے دیتے ہوئے خط میں لکھا گیا کہ ان قوانین کو بنانے کا مقصد ان افسران کو فائدہ پہنچانا تھا جو ان عہدوں کے اہل نہیں تھے جن پر وہ کام کررہے ہیں۔

خط میں مزید لکھا گیا ہے کہ ادارے کے آزادنہ طور پر کام کرنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ آئین کے آرٹیکل 424 کے تحت نیب میں تقرری کے طریقہ کار پر عمل کیا جائے جس کے تحت تمام تقرریاں فیڈرل پبلک سروس کمیشن (ایف پی ایس سی) کے ذریعے کرنا لازمی ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نیب کے چیئرمین کو تقرریوں کا اختیار دے دیا گیا تاکہ وہ جسے چاہیں عہدے پر تعینات کردیں۔

خط میں سپریم کورٹ کے 2013 کے فیصلے کا حوالہ بھی دیا گیا جس میں کورٹ نے ایک محکمہ سے دوسرے محمکہ میں ادغام اور ڈیپوٹیشن سمیت غیر قانونی تقرری کیس کی سماعت کی تھی اورکئی ملازمین کی تقرری کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔

خط میں کہا گیا ہے کہ کئی افراد کو جن میں زیادہ تر سابق فوجی افسران ہیں انہیں ڈیپیوٹیشن پر اعلیٰ عہدوں خاص طور پر نیب کے ریجنل دفاتر میں ڈارئیکٹر جنرلز کے عہدوں پر تعینات کردیا گیا۔

ان میں سے اکثریت کو ڈیپیوٹیشن پر تین برس (1999 سے 2002) تک کے لیے نیب میں لایا گیا تاہم بعد میں ان سب کو مستقل کردیا گیا۔

ان میں جن ریٹائرڈ کرنل سراج الندیم، ریٹائرڈ میجر شہزاد سلیم، ریٹائرڈ بریگیڈیئر حدید، ریٹائرڈ میجر طارق محمود ملک، ریٹائرڈ میجر سید برہان، ریٹائرڈ میجر مسعود احمد لودھی، ریٹائرڈ میجر شبیر احمد، اسکواڈرن لیڈر کرامت، اسکواڈرن لیڈر ارشاد الحق، ریٹائرڈ کرنل صبح صادق، ریٹائرڈ کرنل بہزاد انور بھٹی، ریٹائرڈ اسکواڈرن لیڈر طارق ندیم بھٹی، ریٹائرڈ کیپٹن فرخ، عامر شار، سید محمد حسین، عبدالحفیظ صدیقی، محمد سلیم، الطاف باوانی اور نوازش علی عاصم شامل ہیں۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے نیب سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں اور ہدایات جبکہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کی پالیسیوں سے مستثنیٰ ہے اور کسی نے آج تک نیب سے سابق فوجی افسران اور پسندیدہ افراد کو دی جانے والی ترقیوں کے حوالے سے پوچھنے کی جرات نہیں کی۔

خط میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ نیب بلا خوف و خطر قوانین کو پامال کرتا رہا ہے اور اسے توہین عدالت کا بھی کوئی ڈر نہیں ہے۔

خط میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ چونکہ نیب کے معاملات تک حکام کو رسائی حاصل نہیں اور اسے سزا کا بھی خوف نہیں لہٰذا متعدد افسران سابق فوجی افسران کے ہاتھوں نا انصافی کا شکار بن رہے ہیں جو اپنے فائدے کے لیے بنائے جانے والے قانون کو استعمال کرتے ہوئے اپنی ترقیوں میں مصروف ہیں۔

خط میں افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہے بد قسمتی سے انسداد کرپشن کا ذمہ دار ملک کا سب سے بڑا ادارہ خود قانون سے بالاتر ہے۔

خط میں سپریم کورٹ سے درخواست کی گئی ہے کہ انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نیب میں غیر قانونی تقرریوں اور قانون کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔

یہ خبر 19 جولائی 2016 کو ڈان اخبار کو شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں