افغانستان کے سرکاری ٹی وی اسٹیشن پر حملہ

اپ ڈیٹ 17 مئ 2017
سرکاری میڈیا ہاؤس پر حملے کے بعد افغان فورسز پوزیشن سنبھال رہی ہیں — فوٹو / اے ایف پی
سرکاری میڈیا ہاؤس پر حملے کے بعد افغان فورسز پوزیشن سنبھال رہی ہیں — فوٹو / اے ایف پی

جلال آباد: افغانستان کے مشرقی شہر جلال آباد میں واقع سرکاری ریڈیو ٹی وی اسٹیشن پر دہشت گردوں نے حملہ کردیا جبکہ صحافی اور عملہ عمارت کے اندر ہی محصور ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق حکومتی ترجمان عطاء اللہ خوگیانانی نے بتایا کہ ’4 مسلح دہشت گرد ریڈیو ٹیلی وژن افغانستان (آر ٹی اے) میں داخل ہوئے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ان میں سے دو دہشت گردوں نے خود کو دھماکے سے اڑالیا جبکہ 2 دہشت گردوں کو 4 گھنٹے تک جاری رہنے والی جھڑپ کے بعد ہلاک کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں دھماکا، علماء کونسل کے سربراہ ہلاک

قبل ازیں انہوں نے حملہ آوروں کی تعداد تین بتائی تھی جبکہ انہوں نے بتایا کہ حملے کے نتیجے میں اب تک 3افراد ہلاک اور 16 زخمی ہوئے ہیں۔

افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نجیب دانش نے تصدیق کی کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک پولیس افسر بھی شامل ہے۔

فائرنگ کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد عمارت سے بچ نکلنے والے آر ٹی اے کے ایک فوٹو گرافر نے بتایا کہ اس کے بعض ساتھی عمارت کے اندر محصور ہیں۔

برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری شدت پسند گروپ داعش نے قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

افغانستان کے صوبے ننگرہار میں شدت پسند تنظیم داعش سرگرم ہے اور جلال آباد اس کا دارالحکومت ہے جہاں یہ ٹی وی اسٹیشن واقع ہے۔

یاد رہے کہ گزشتہ ماہ امریکی فوج نے صوبہ ننگر ہار میں ہی ’سب سے بڑا غیر جوہری بم‘ گرایا تھا جس کے نتیجے میں داعش کے درجنوں کارکن ہلاک ہوئے تھے۔

امریکا کی جانب سے کسی بھی جنگ میں پہلی بار اس بم کو استعمال کیا گیا تھا جسے ’تمام بموں کی ماں‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس حملے کے بعد دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی جبکہ بعض نے افغانستان کی سرزمین کو اس بم کا تجربہ کرنے کے لیے استعمال کرنے پر تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا اور کہا تھا کہ افغانستان میں داعش سے بڑا خطرہ طالبان ہیں لیکن امریکا نے داعش کے خلاف یہ بم استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: امریکا نے افغانستان میں سب سے بڑا غیر جوہری بم گرادیا

افغانستان میں موجود امریکی فورسز کا دعویٰ ہے کہ انتشار اور لڑائی میں ہونے والے جانی نقصان کی وجہ سے داعش کی افغانستان میں موجودگی کم ہورہی ہے اور جنگجوؤں کی تعداد 3 ہزار سے کم ہوکر صرف 800 تک رہ گئی ہے۔

امریکی محکمہ دفاع نے مبینہ طور پر وائٹ ہاؤس سے درخواست کی ہے کہ وہ طالبان کے خلاف جنگ میں آنے والے تعطل کو ختم کرنے کے لیے مزید امریکی فوجیوں کو افغانستان بھیجے۔

اس وقت افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 8400 کے قریب ہے جبکہ نیٹو افواج کے 5000 فوجی بھی وہاں موجود ہیں۔


تبصرے (0) بند ہیں