صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے ایک پولیو ورکر کو ہلاک کردیا۔

پولیس کے مطابق ہلاک ہونے والے شخص کی شناخت رفید اللہ کے نام سے ہوئی جو کہ بنوں میں ہونے والی انسداد پولیو مہم کے سابق سپروائزر تھے۔

یہ بھی پڑھیں: پولیو ویکسین 'حرام' نہیں : لیبارٹری رپورٹ

کینٹ پولیس اسٹیشن کے انچارج نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ رفید اللہ مقامی بازار جارہے تھے جب نامعلوم حملہ آوروں نے ان پر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں زخمی ہوگئے۔

فائرنگ کے فوراً بعد پولیس جائے وقوع پر پہنچی اور رفید اللہ کو ہسپتال منتقل کیا تاہم وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔

انہوں نے بتایا کہ ’ہم نے واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں اور لاش کو پوسٹ مارٹم کے لیے بھجوادیا گیا ہے جبکہ اب تک قتل کے محرکات سامنے نہیں آسکے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں پولیو جہاد کے 'شہداء' کی داستان

خیال رہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں جاری انسداد دہشت گردی آپریشنز کے ردعمل کے طور پر طالبان اور دیگر عسکریت پسند متعدد بار پولیو ویکسینیشن سینٹرز سمیت ہیلتھ ورکرز کو نشانہ بنا چکے ہیں، جن کا ماننا ہے کہ پولیو کے قطرے پاکستانی بچوں کو بانجھ بنانے یا خفیہ معلومات اکھٹا کرنے کے لیے مغربی ممالک کا بہانہ ہیں۔

خصوصاً قبائلی علاقوں میں اس پریشان کن رجحان میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ابیٹ آباد کے قرب و جوار میں ایک پاکستانی فزیشن ڈاکٹر شکیل آفریدی کی جانب سے چلائی جانے والی ایک جعلی ہیپٹائٹس ویکسین مہم نے ہی امریکا کو مئی 2011 میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کو تلاش کرکے ہلاک کرنے میں مدد دی۔

مغرب میں پولیو کا خاتمہ ہوئے طویل عرصہ گزر چکا ہے، لیکن پاکستان میں طالبان کی جانب سے حفاظتی ویکسین پر پابندی، طبّی عملے کو حملوں کا نشانہ بنانے اور اس ویکسین کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے سے پولیو کا مرض ملک میں اب تک موجود ہے۔

پولیو انتہائی موذی وائرس ہے، جو عام طور پر حفظان صحت کی غیرتسلی بخش صورتحال کے باعث منتقل ہوجاتا ہے۔

اس وائرس کا کوئی علاج نہیں، جس سے زیادہ تر 5 سال سے کم عمر کے بچے متاثر ہوتے ہیں اور اسے صرف ویکسین کے ذریعے ہی روکا جاسکتا ہے۔


تبصرے (0) بند ہیں