• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm

پاناما کیس: میڈیا پر دستاویزات لیک ہونے پر عدالت عظمٰی برہم

شائع July 20, 2017

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں شریف خاندان کے مالی معاملات کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی حتمی رپورٹ پر چوتھے روز سماعت ہوئی، جہاں وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل دیے۔

جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی عمل درآمد بینچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔

گذشتہ روز سماعت کے دوران وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث اور وزیرخزانہ اسحٰق ڈار کے وکیل حسن طارق نے اپنے دلائل مکمل کرلیے تھے، جبکہ عدالت عظمیٰ نے وزیراعظم کے بچوں حسن، حسین اور مریم نواز کے وکیل سے بھی دستاویزات طلب کی تھیں۔

مزید پڑھیں: پاناماکیس:'جے آئی ٹی کامقصد شریف خاندان کو صفائی کا موقع دینا تھا'

آج سماعت کے آغاز پر وزیراعظم کے بچوں کے وکیل سلمان اکرم راجا نے مزید دستاویزات جمع کروائیں، عدالتی بینچ نے دستاویزات سپریم کورٹ میں پیش کیے جانے سے قبل میڈیا پر لیک ہونے کے معاملے پر برہمی کا اظہار کیا۔

جسٹس اعجاز افضل نے سلمان اکرم راجا کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ نے دستاویزات وقت پر جمع کروانے کا کہا تھا۔

سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میں نے اپنے طور پر کوشش کی۔

جس پر جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ تمام دستاویزات میڈیا پر زیر بحث رہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ میڈیا پر جاری ہونے والی دستاویزات میں ایک خط سابق قطری وزیراعظم کا بھی ہے۔

جبکہ جسٹس عظمت سعید کا کہنا تھا کہ آپ نے میڈیا پر اپنا کیس چلایا تو میڈیا کو دلائل بھی دے دیتے۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ باہر میڈیا کا ڈائس لگا ہے، وہاں دلائل بھی دے آئیں۔

جس پر سلمان اکرم راجہ نے جواب دیا کہ میڈیا پر دستاویزات میری جانب سے جاری نہیں ہوئیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے دوبارہ نشاندہی کی کہ اب تک ہم آمدن کا ذریعہ اور منی ٹریل نہیں ڈھونڈ سکے، منی ٹریل کے بارے میں ہمارے سوال اب بھی اپنی جگہ پر موجود ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:پاناماکیس: 'منی ٹریل کا جواب مل جائے تو بات ختم ہوجائے گی'

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے خود سے نتیجہ نکال لیا کہ حماد بن جاسم کے انٹرویو کی ضرورت نہیں، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ عدالت کہہ چکی ہے کہ فیصلہ دستاویز پر ہونا ہے، مزید تحقیقات کا کہہ کر آپ نے نئی بات کردی۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ مکمل انکوائری ہونی چاہیے۔

سماعت کے دوران جسٹس عظمت سعید نے وزیراعظم کے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ ہم سے کہہ رہے ہیں کہ معاملہ احتساب عدالت کو بھیج دیں، جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں صرف انکوائری کا کہہ رہا ہوں۔

جسٹس عظمت سعید نے واضح کیا کہ لندن فلیٹس کے نیلسن اور نیسکول کی ملکیت ہونے پر کوئی جھگڑا نہیں ہے اور موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز فلیٹس کی مالک ہیں۔

سلمان اکرم راجہ نے موقف اختیار کیا کہ اُن کا کہنا ہے کہ مریم مالک ہیں جبکہ ہمارا کہنا ہے کہ حسین مالک ہیں، فرق تو نہیں ہے۔

جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے واضح کیا کہ بہت فرق ہے، اگر مریم مالک ہیں تو ہم فنڈز کو بھی دیکھیں گے۔

جسس اعجاز افضل نے پھر نشاندہی کی کہ 1993 میں بچوں کی عمریں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ فلیٹس نہیں خرید سکتے تھے۔

3 رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ الزام یہ ہے کہ فلیٹس وزیراعظم نے خریدے اور درخواست گزار کہتے ہیں کہ وزیراعظم فنڈز بتائیں۔

جسٹس عظمت سعید نے نشاندہی کی کہ لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم پر الزام کیا ہے؟ تو کہہ دیتے ہیں کہ نیب کا سیکشن 9 اے 5 کرپشن کے حوالے سے ہی ہے۔

سماعت کے دوران سابق قطری وزیراعظم حماد بن جاسم اور برٹش ورجن آئی لینڈ (بی وی آئی) کی دستاویزات کھول دی گئیں، جس میں جے آئی ٹی کو بھیجے گئے 2 خطوط بھی شامل تھے۔

عدالت عظمیٰ کا کہنا تھا کہ ہم نے کھلی عدالت میں دستاویز کا جائزہ لیا، دونوں فریقین اس ریکارڈ کو حاصل کرسکتے ہیں۔

عدالتی بینچ نے سلمان اکرم راجا کی جانب سے پیش کی گئی بیشتر دستاویزات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان دستاویزات کی یو اے ی کی وزارت انصاف نے پہلے ہی تردید کردی تھی۔

بینچ کے سربراہ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ منی ٹریل کا جواب اگر بچے نہ دے سکیں تو اس کے نتائج پبلک آفس ہولڈر (یعنی وزیراعظم) پر مرتب ہوں گے اور انہیں بھگتنا پڑے گا اور ہم ان کے خلاف فیصلہ دینے پر مجبور ہوجائیں گے۔

مزید پڑھیں: پاناما جے آئی ٹی:’ڈرنے کی کوئی بات نہیں، ہمارے ہاتھ صاف ہیں‘

دوسری جانب جسٹس اعجاز الاحسن نے ٹرسٹ ڈیڈ کے مصدقہ ہونے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ دستاویزات تیار کسی اور دن اور تصدیق کسی اور دن کروائی گئیں۔

عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل رانا وقار کو روسٹرم پر طلب کیا، جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ رانا صاحب بتائیں اگر سپریم کورٹ میں غلط دستاویزات دی جائیں تو کیا ہوتا ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بتایا کہ غلط دستاویزات پر مقدمہ درج ہوتا ہے اور اس جرم کی سزا 7 سال قید ہو سکتی ہے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ عدالت میں غلط دستاویزات کیسے پیش ہوگئیں، ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے،یہ آپ لوگوں نے کیا کردیا، چھٹی کے دن تو برطانیہ میں کوئی فون بھی نہیں اٹھاتا،

ان کا مزید کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کے رابطہ کرنے پر کمپنی نے کوئی جواب نہ دیا۔

جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ یہ دستاویزات ایڈووکیٹ اکرم شیخ نے جمع کرائی ہیں، معلوم کروں گا کہ یہ کیسے ہوا۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ جعلی دستاویزات کے معاملہ نے میرا دل توڑ دیا، جعلسازی پر قانون اپنا راستہ خود اختیار کرے گا۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ تکنیکی بنیاد پر کیلبری فونٹ کا معاملہ درست نہیں، جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ 'گورے تو چھینک مارتے ہیں تو رومال لگا لیتے ہیں، کیا کوئی قانونی فونٹ چوری کرے گی'.

یہ بھی پڑھیں: پاناما، جے آئی ٹی، مریم نواز اور’کیلبری‘ فونٹ

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کے ساتھ بہت سے مسائل ہیں، ہر شخص کے آئینی اختیارات پر ہم بہت محتاط ہیں۔

جسٹس عظمت سعید نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں ہمارے سامنے کیس جعلی دستاویزات کا ہے، فی الحال بادی النظر سے آگے نہیں جارہے۔

جسٹس عجاز الاحسن نے وزیراعظم کے وکیل سے کہا کہ قطری کو پیش کرنا آپ کی ذمہ داری تھی، وہ آپ کا اسٹار گواہ تھا لیکن آپ نے انہیں پیش نہیں کیا، آپ قطری سرمایہ کاری کی رسیدیں ہی دکھا دیتے، آپ نے نہ ٹرانزیکشن دکھائی اور نہ رسیدیں، ہم کیسے مان لیں۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میرے دلائل کل ختم ہو جائیں گے،جس پر تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ وہ جواب الجواب پر مختصر دلائل دیں گے۔

جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ کیپٹن (ر) صفدر کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا، اگر کوئی آیا تو ٹھیک ورنہ رہنے دیں۔

جس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ شاید شاہد حامد کیپٹن صفدر کے وکیل ہوں۔

جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ اگر وکیل آیا تو سن لیں گے ورنہ فیصلہ دے دیں گے۔

بعدازاں کیس کی سماعت کل بروز جمعہ (21 جولائی) تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

سابق قطری وزیراعظم کا تیسرا خط سپریم کورٹ میں پیش

سابق قطری وزیراعظم کا تیسرا خط—.ڈان نیوز
سابق قطری وزیراعظم کا تیسرا خط—.ڈان نیوز

سماعت سے قبل سابق قطری وزیراعظم حماد بن جاسم الثانی کا جے آئی ٹی کو بھیجا گیا تیسرا خط بھی سپریم کورٹ میں پیش کردیا گیا، جس میں جے آئی ٹی کو آئندہ ہفتے کے آخر میں دوحہ مدعو کیا گیا ہے۔

حماد بن جاسم کی جانب سے جے آئی ٹی کو یہ خط رواں ماہ 17 جولائی کو لکھا گیا، جس میں پہلے بھیجے گئے 2 خطوط کی بھی تصدیق کی گئی ہے۔

اپنے خط میں سابق قطری وزیراعظم نے واضح کیا کہ ان پر پاکستانی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔

حماد بن جاسم نے پاکستان آکر کسی بھی عدالت یا ٹریبونل کے سامنے پیش ہونے سے انکار کردیا۔

اسحٰق ڈار کے وکیل نے دستاویزات جمع کرادیں

سپریم کورٹ میں اسحٰق ڈار کے وکیل طارق حسن کی جانب سے مزید دستاویزات بھی جمع کرائی گئی، جن میں ٹیکس گوشوارے، دبئی کے شیخ کے خطوط، نیب اور ایف بی آر کی خط و کتابت شامل ہے۔

پاناما انکشاف

پاناما لیکس کے معاملے نے ملکی سیاست میں اُس وقت ہلچل مچائی، جب گذشتہ سال اپریل میں بیرون ملک ٹیکس کے حوالے سے کام کرنے والی پاناما کی مشہور لا فرم موزیک فانسیکا کی افشا ہونے والی انتہائی خفیہ دستاویزات سے پاکستان سمیت دنیا کی کئی طاقت ور اور سیاسی شخصیات کے 'آف شور' مالی معاملات عیاں ہو گئے تھے۔

پاناما پیپرز کی جانب سے انٹرنیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والا یہ ڈیٹا ایک کروڑ 15 لاکھ دستاویزات پر مشتمل ہے، جس میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن، سعودی عرب کے فرمانروا شاہ سلمان، آئس لینڈ کے وزیر اعظم، شامی صدر اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سمیت درجنوں حکمرانوں کے نام شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شریف خاندان کی 'آف شور' کمپنیوں کا انکشاف

ویب سائٹ پر موجود ڈیٹا کے مطابق، پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے بچوں مریم، حسن اور حسین ’کئی کمپنیوں کے مالکان ہیں یا پھر ان کی رقوم کی منتقلی کے مجاز تھے‘۔

موزیک فانسیکا کے نجی ڈیٹا بیس سے 2.6 ٹیرا بائٹس پر مشتمل عام ہونے والی ان معلومات کو امریکی سفارتی مراسلوں سے بھی بڑا قرار دیا جا رہا ہے۔

ان انکشافات کے بعد اپوزیشن جماعتوں بالخصوص پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا اور بعدازاں اس حوالے سے سپریم کورٹ سے رجوع کیا گیا۔

سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر سماعت کے بعد رواں سال 20 اپریل کو وزیراعظم نواز شریف کے خلاف پاناما کیس کی مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی تھی۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے جے آئی ٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ 60 روز کے اندر اس معاملے کی تحقیقات مکمل کر کے اپنی رپورٹ پیش کرے جس کی بنیاد پر حتمی فیصلہ سنایا جائے گا۔

جے آئی ٹی نے 2 ماہ کی تحقیقات کے بعد رواں ماہ 10 جولائی کو سپریم کورٹ میں اپنی حتمی رپورٹ جمع کروائی تھی، 10 جلدوں پر مشتمل اس رپورٹ میں وزیراعظم سمیت شریف خاندان پر کئی الزامات لگاتے ہوئے مختلف شواہد سامنے لائے گئے تھے۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024