نواز شریف اپنی اہلیہ اور بیٹی کو لاہور کے سفر پر روانہ کرتے ہوئے—فوٹو: ڈان اخبار
نواز شریف اپنی اہلیہ اور بیٹی کو لاہور کے سفر پر روانہ کرتے ہوئے—فوٹو: ڈان اخبار

اسلام آباد: سیکیورٹی خدشات کے باوجود سابق وزیراعظم نواز شریف بدھ (9 اگست) کے روز گرینڈ ٹرک (جی ٹی) روڈ کے ذریعے لاہور روانگی کے اپنے فیصلے پر قائم ہیں.

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق منگل (8 اگست) کو پنجاب ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھا کہ 'میں صورتحال کے پرسکون ہونے کا انتظار نہیں کروں گا کیونکہ مجھے اپنے گھر جانے کا پورا حق ہے'.

رپورٹس کے مطابق سابق وزیراعظم کے بھائی وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ احسن اقبال اور سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان ان قریبی ساتھیوں میں سے ہیں جنہوں نے برطرف وزیراعظم کو بذریعہ سڑک لاہور کا سفر کرنے سے خبردار کیا تھا.

نواز شریف نے ان افراد کی تجویز کو نظرانداز کیا لیکن اپنی اہلیہ کلثوم اور بیٹی مریم کو اپنی روانگی سے ایک روز قبل ہی لاہور روانہ کردیا.

سابق وزیراعظم بدھ کی صبح 10 بجے کے قریب پنجاب ہاؤس کیمپ آفس سے روانہ ہوں گے اور عہدے پر موجود وزیراعظم کو دیے جانے والے پروٹوکول میں سفر کریں گے.

جڑواں شہروں سے روانگی پر ان کے جی ٹی روڈ کے سفر میں پہلا پڑاؤ روات ہوگا.

مزید پڑھیں: نواز شریف کی لاہور واپسی کو تاریخی بنانے کیلئے مسلم لیگ متحرک

صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے پارلیمنٹ کے باہر دھرنے کا وقت ہو، دارالحکومت کو لاک ڈاؤن کرنے کی کوششیں یا پاناما پیپرز کیس سے جڑے معاملات انہوں نے کبھی بھی ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش نہیں کی.

نواز شریف کے مطابق ان کی نااہلی پر نظرِثانی کی پٹیشن جلد ہی سپریم کورٹ میں دائر کردی جائے گی جس میں درخواست کی جائے گی کہ اس کی سماعت لارجر بینچ کرے۔

اس بات پر تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہ ملکی تاریخی کے 18 وزرائے اعظم میں سے کوئی بھی اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرسکا، نواز شریف کا کہنا تھا کہ صرف تین آمروں نے دہائیوں تک ملک پر حکومت کی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کو بار بار منسوخ کیا گیا لیکن عدلیہ نے نہ صرف ہر بار فوجی حکومت کو قانونی حیثیت دی بلکہ ڈکٹیٹرز کو ان کے مرضی کے مطابق آئین میں ترمیم کا حق بھی دیا۔

یہ بھی پڑھیں: ’میری نااہلی کا فیصلہ ہوچکا تھا، جواز ڈھونڈا جا رہا تھا‘

سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 'ملک ایسے نہیں چل سکتے' وقت آگیا ہے کہ راستہ تلاش کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر گرینڈ ڈیبیٹ ہو۔

انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ ایک بار انہیں کالعدم قرار دے دیئے جانے والے آئین کے آرٹیکل 58(2) بی کی وجہ سے جنرل مشرف نے وزیراعظم کے عہدے سے ہٹایا اور اب عدلیہ نے انہیں ایسے الزام پر نااہل قرار دیا جس کا پٹیشن میں تذکرہ ہی نہیں تھا۔

انہوں نے سوال کیا 'میں وہ تنخواہ کیوں ظاہر کرتا جو میں نے اپنے بیٹے کی کمپنی سے کبھی وصول ہی نہیں کی؟'۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ 20 کروڑ افراد کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کے ساتھ ایسا برتاؤ نہیں کیا جانا چاہیئے۔

مزید پڑھیں: ’وائرس منتخب وزیراعظم کو اپنی مدت پوری کرنے نہیں دیتا‘

نواز شریف نے وزیراعظم کی حیثیت سے اپنی واپسی سے متعلق پوچھے جانے والے سوالات کا جواب دینے سے گریز کیا تاہم انہوں نے اس بات کی نشاندہی کی کہ وہ سیاست میں فعال رہیں گے اور ان کی اننگ ابھی مکمل نہیں ہوئی۔

ان کا کہنا تھا کہ جب جنرل مشرف نے مجھے جلاوطن کردیا تھا تو کئی افراد کا ماننا تھا کہ میرا سیاسی کیریئر ختم ہوگیا 'لیکن ایسا نہیں ہوا تھا اور اب بھی ایسا نہیں ہوگا'۔

اپنے خلاف مقدمے کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے دعویٰ کیا کہ پاناما گیٹ پٹیشن کو ابتدا میں رجسٹرار آفس نے غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا لیکن چند ہفتوں بعد اسے سماعت کے لیے منظور کرلیا گیا۔

ان کا کہنا تھا مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی ترتیب متنازع تھی اور جس طرح ٹیم نے کام کیا وہ سب جانتے ہیں۔

نواز شریف نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہ ہونے کا مشورہ دیا گیا تھا لیکن انہوں نے پیشی کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کے ہاتھ اور ضمیر صاف تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں