عدالتی حکم کےباوجود عائشہ باوانی کالج بند، تعلیمی سرگرمیاں متاثر

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2017
کالج کے مرکزی دروازے پر احتجاج کرتے طلبہ—فوٹو: ڈان نیوز
کالج کے مرکزی دروازے پر احتجاج کرتے طلبہ—فوٹو: ڈان نیوز

کراچی میں واقع عائشہ باوانی کالج کو سیل کیے جانے کے معاملے پر ٹرسٹ اور حکومت سندھ کے درمیان تنازع سنگین ہوگیا جبکہ ٹرسٹ نمائندگان نے عدالتی حکم کے بعد صوبائی وزیر صحت کے الٹی میٹم اور وزیراعلیٰ سندھ کے احکامات کو ماننے سے صاف انکار کرتے ہوئے کالج کھولنے سے انکار کردیا۔

خیال رہے کہ عائشہ باوانی ٹرسٹ اور محکمہ تعلیم کے درمیان جاری جھگڑے کے بعد گذشتہ ہفتے (15 ستمبر) عائشہ باوانی کالج کو سیل کرنے کی رپورٹس سامنے آئی تھیں تاہم اگلے ہی روز (16 ستمبر) سندھ ہائیکورٹ نے کالج سیل کرنے کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرتے ہوئے اسے کھولنے کی ہدایات جاری کردی تھیں۔

پیر (18 ستمبر) کو محکمہ تعلیم کی ہدایت پر جب انتظامیہ اور طالبعلم کالج پہنچے تو وہ بدستور بند تھا جس کے بعد طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے شارع فیصل کو بند کرنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا عائشہ باوانی کالج دوبارہ کھولنے کا حکم

اسی دوران صوبائی وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہرکی نے ٹرسٹ انتظامیہ کو آدھے گھنٹے میں کالج کھولنے کا الٹی میٹم دیا اور کچھ ہی دیر بعد وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی کالج میں تعلیمی سرگرمیوں کا دوبارہ آغاز کرنے کی ہدایات جاری کیں۔

تاہم کالج کے دروازے پر موجود ٹرسٹ نمائندگان نے ان احکامات پر عمل کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کے بعد وزیراعلیٰ سندھ کو اس معاملے میں مداخلت کا اختیار نہیں۔

ٹرسٹ کا مؤقف ہے کہ انہیں عدالت کی جانب سے کوئی حکم امتناع موصول نہیں ہوا اور 15 ستمبر کو ان کے حق میں فیصلہ سنایا گیا تھا۔

ٹرسٹ نمائندگان کے مطابق حوالگی کے بعد اب کالج سرکاری نہیں رہا بلکہ نجی کالج بن چکا ہے۔

ہائی کورٹ میں ٹرسٹ تحلیل کرنے کی درخواست

دوسری جانب سندھ حکومت نے عائشہ باوانی ٹرسٹ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے ٹرسٹ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کردیا۔

سندھ حکومت کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ موجودہ انتظامیہ ادارے کو غیر قانونی طور پر کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے۔

درخواست کے مطابق 1958 میں ٹرسٹ کو تعلیمی مقاصد کے لیے لیز پر 3 ایکڑ سے زائد اراضی دی گئی تھی، ٹرسٹ کے تحت چلنے والے اسکول اور کالج کو 1975 میں مارشل لاء ریگولیشن کے تحت نیشنلائز کیا گیا جس کے بعد زمین کی لیز مقررہ مدت سے پہلے ہی ختم ہوگئی جبکہ 1984 میں ٹرسٹ نے زمین پر غیر قانونی قبضہ کرلیا۔

سندھ حکومت نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرسٹ تحلیل کرکے سرکاری اداروں کو صوبائی حکومت کے ماتحت چلانے کی اجازت دی جائے۔

ٹرسٹ کا مؤقف

گذشتہ روز اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے بیگم عائشہ باوانی ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر وقف نے کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ٹرسٹ کے عوامی رابطہ افسر امداد حسین شاہ کا کہنا تھا کہ ’کالج کی عمارت کو کبھی سیل نہیں کیا گیا، سب نے جو ہوتے دیکھا وہ دراصل پولیس سندھ ہائی کورٹ کے احکامات پر اسکول اور کالج انتظامیہ کو عمارت کا قبضہ دے رہی تھی‘۔

پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم لینڈ مافیا نہیں جیسا کہ ہمیں ڈائریکٹوریٹ آف کالجز کی جانب سے ظاہر کیا جارہا ہے، ان عمارتوں کو تعلیمی مقاصد کے لیے تعمیر کیا گیا تھا اور یہ تعلیم فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گی‘۔

ٹرسٹ سیکریٹری فرید احمد کے مطابق جب کالج ہمارے حوالے کردیا گیا ہے تو یہ سرکاری کالج نہیں رہا، ’ہم کالج میں داخل طالب علموں کو تعلیم دیں گے لیکن ہم جس بات سے انکار کررہے ہیں وہ سرکاری عملہ ہے، ہمارے پاس انتظامی امور دیکھنے اور تعلیم فراہم کرنے کے لیے اپنا عملہ موجود ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سندھ ہائیکورٹ کالج ہمارے حوالے کرچکا ہے اور اگر حکومت چاہے تو ہمارے احاطے میں موجود کالج کو اپنی مرضی کے مقام پر منتقل کرسکتی ہے، اگر ایسا نہیں کرسکتی تو ہم ان کے طالب علموں کو لینے کے لیے تیار ہیں لیکن حکومتی عملے کو نہیں لیا جائے گا‘۔

تبصرے (0) بند ہیں