اسلام آباد: وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی جانب وفاقی وزیر خارجہ خواجہ آصف کی پاکستان کو ’اپنا گھر درست کرنے‘ کی ضرورت کی تجویز کی توثیق پر پاکستان مسلم لیگ (ن) میں دراڑیں پڑنے لگی۔

دوسری جانب حکمران جماعت کی اس خامی سے اپوزیشن جماعتوں کو حکومت کی خارجہ پالیسی اور سیکیورٹی پالیسی پر تنقید کا موقع مل گیا۔

اپنی ہی جماعت پر ایک اور وار کرتے ہوئے سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے گذشتہ روز وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو تجویز دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر شرمندہ نہ کیا جائے۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے کابینہ اراکین کے ان بیانات پر تشویش کا اظہار کیا اور پاکستان کی قومی سلامتی کے اس سنجیدہ مسئلے کو پارلیمنٹ میں بحث کے لیے لانے کا مطالبہ کیا۔

مزید پڑھیں: وزیر داخلہ احسن اقبال بھی ’پہلے اپنا گھر ٹھیک‘ کرنے کے حامی

واضح رہے کہ ایک نجی ٹیلی ویژن کو دیے گئے انٹرویو کے دوران وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پاکستان کے اندرونی مسائل کو درست کرنے پر زور دیا تھا، جبکہ جیش محمد اور لشکر طیبہ جیسی کالعدم تنظیموں کے حوالے سے اعتراف کیا تھا کہ یہ تنظیمیں پاکستانی سرزمین سے اپنے کام کر رہی ہیں۔

وزیر داخلہ احسن اقبال نے بھی وزیر خارجہ کے نقطہ نظر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کالعدم تنظیموں کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے جو نام تبدیل کرکے فعال ہوگئی ہیں۔

چوہدری نثار علی خان کے ترجمان کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق سابق وزیر داخلہ نے دونوں وزراء کے بیانات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ حساس اور اہم معاملات میں بیانات حقائق پر مبنی ہونے چاہئیں نہ کہ تصورات کی بنیاد پر۔

اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ آرمی چیف دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بے پناہ قربانیوں کے حوالے سے دنیا پر زور دے رہے ہیں کہ وہ انہیں تسلیم کریں ایسے میں وفاقی وزراء کی جانب سے پاکستان کی پوزیشن کو خراب کرنا اور پاکستان سے ہی ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کرنا حیران کن ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آرمی چیف پارلیمنٹ کے ساتھ روابط بڑھانے کے خواہش مند

سابق وزیر داخلہ نے یہ بھی کہا تھا کہ دونوں وزراء گذشتہ چار برس سے وفاقی وزیر ہیں اور دونوں نے ہی وفاقی کابینہ اور قومی سلامتی کمیٹی کے سامنے ان خیالات کا اظہار کبھی نہیں کیا۔

وزیر اعظم کے بیان، جس میں انہوں نے خواجہ آصف کے بیان پر اتفاق کا اظہار کیا تھا، کے حوالے سے چوہدری نثار علی خان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپنے گھر کو درست کرنا ضروری ہے لیکن وزیر اعظم کو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو شرمندہ نہیں کرنا چاہیے۔

چوہدری نثار نے الزام لگایا کہ حکومتی عہدیداران کی جانب سے ایسے بیانات ملک دشمنوں کے بیانیہ کی مدد کرتے ہیں اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے موقف کو کمزور کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں بین الاقوامی افواج کی موجودگی کے باوجود دہشت گرد افغانستان میں محفوظ پناہ گاہیں بنا رہے ہیں۔

اپوزیشن کا ردِ عمل

قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان پر الزامات کی تائید کی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے میں ناکام ہوگیا ہے۔

نیشنل پریس کلب (این پی سی) میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سید خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیر داخلہ احسن اقبال گذشتہ چار برس سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی کابینہ کا حصہ رہے ہیں اور انہیں قوم کو بتانا چاہیے کہ ملکی معاملات کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار کو ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ’گھر کو ٹھیک کرنے‘ کی بات درست ہے تو ایسی بات کرنا بھی ملک کے لیے نقصان دہ ہوگا۔

اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ کیا حکومت کو یقین ہے کہ موجودہ صورتحال کے ذمہ دار چوہدری نثار ہیں، لیکن سابق وزیر داخلہ تو اس کی تردید کرچکے ہیں۔

مزید پڑھیں: ’وزیراعظم گھر کی صفائی ضرور کریں لیکن پاکستان کا تماشا نہ بنائیں‘

خورشید شاہ نے کہا کہ اس طرح حکومتی حلقوں میں تضاد نظر آتا ہے جو حکمراں جماعت کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔

گذشتہ روز تحریک انصاف نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو لکھے گئے ایک خط میں وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر خارجہ کو ایوان میں طلب کرکے ان کے بیانات کی وضاحت لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

یہ خط تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی مراد سعید کی جانب سے لکھا گیا جس میں انہوں نے اس معاملے پر بات چیت کے لیے اسمبلی کا خصوصی اجلاس بلانے کی گزارش کی تھی۔

اپنے خط میں مراد سعید نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یوم دفاع کی تقریر میں آرمی چیف نے دنیا سے ’ڈو مور‘ کا مطالبہ کیا تھا لیکن حکومتی وزراء یہی مطالبہ پاکستان سے کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم سے سول اور عسکری قیادت کے بیانات میں تضاد کے حوالے سے وضاحت لینی چاہیے۔


یہ خبر 20 ستمبر 2017 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں