ایسا شاذ و نادر ہی نظر آتا ہے جب سیاح پرستاروں اور فالورز کے تصورات بدلنے کی کوشش کریں، عام طور پر یہاں دنیا بھر سے لوگ بہت کم تعداد میں آتے ہیں اور اپنی تصاویر مختلف کیپشنز کے ساتھ پوسٹ کرتے ہیں، مگر نیدرلینڈ سے تعلق رکھنے والا جوڑا ایلکس اور سبسٹین ان میں سے نہیں۔

29 سالہ سبسٹین اور 26 سالہ ایلکس نے دنیا کی سیاحت کے لیے اپنی ملازمتیں چھوڑیں اور اب ایشیاءکے ایسے ممالک کی سیاحت کررہے ہیں جہاں لوگوں کا بہت کم جانا ہوتا ہے اور وہ خود اپنے بلاگ میں لکھتے ہیں ' ہمارا موجودہ سفر ہمیں ایشیاءکی ایسی غیر معمولی منازل جیسے افغانستان، پاکستان اور ایران میں لے کر گیا ہے جہاں اکثر افراد نہیں جاتے'۔

اس جوڑے نے اپنے سفر کا آغاز گزشتہ سال فروری میں کیا تھا اور آرمینیا اور جارجیا کے بعد پاکستان آئے اور یہاں سے چین، وسطیٰ ایشیاءاور پھر بھارت سمیت اب تک تیرہ ممالک میں گئے، مگر اب وہ پھر پاکستان واپس لوٹ کر آئے ہیں۔

مزید پڑھیں : ایک امریکی خاتون کو پاکستان کیسا لگا؟

گزشتہ سال جون میں جب یہ جوڑا پاکستان آیا تو وہ اس مک کے بارے میں کوئی واضح رائے نہیں رکھتا تھا، گزشتہ سال ڈان امیجز سے بات کرتے ہوئے ایلکس نے بتایا ' ہم نے انٹرنیٹ پر پاکستان کے بارے میں جو کچھ بھی دریافت کیا اس سے لگتا تھا کہ یہ دنیا کا سب سے خطرناک ملک ہے، مگر ہم ہر اس بات پر یقین نہیں کرتے جو پڑھتے، ہمارا سب سے بڑا خدشہ رمضان کا مہینہ تھا، درحقیقت ہمارا خیال تھا کہ دن میں پانی پینے پر گرفتار کرلیا جائے گا یا کراچی کی گلیوں میں ہیٹ اسٹروک کا شکار ہوکر مرجائیں گے'۔

مگر پھر ان کے خیالات میں تبدیلی آئی اور پہلے دورے کے دوران انہوں نے اعتراف کیا ' ہمارے دورے کا سب سے حیرت انگیز حصہ ان لوگوں کی مہمان نوازی تھی جن سے ہماری ملاقات ہوئی، ایران میں سفر کے بعد ہمارا خیال تھا کہ ایرانیوں سے زیادہ مہمان نواز افراد کو ڈھونڈنا ناممکن ہوگا، مگر ہم غلط ثابت ہوئے، پاکستانی عوام نے ہمیں حیران کردیا'۔

اور یہی مہمان نوازی انہیں ایک بار پھر پاکستان واپس لے کر آئی ہے۔

So, guesses as to where we are right now? 😉

A post shared by Alex and Sebastiaan (@lostwithpurpose) on

رواں ماہ کے شروع میں پاکستان آنے پر انہوں نے ایک انسٹاگرام پوسٹ پر لکھا 'ہم پاکستان واپس آنے کا سوچ رہے تھے، اور یہ ہماری توقعات اور یادوں پر پورا اترا ہے، یہاں آنے کے بعد پرانے دوستوں سے ملاقات ہوئی اور کچھ نئے دوست بنائے، کچھ لوگوں سے توہم سڑکوں پر چلتے ہوئے ملے، لاہوریوں نے ہمیں رائیڈز دیں اور چائے سے تواضع کی، اپنے گھروں کو دکھایا اور شہر کے ارگرد لے گئے'۔

ایک اور پوسٹ میں انہوں نے لکھا 'کسی شہر یا ملک میں لوگوں اور جگہوں کے درمیان تضادات کو دیکھنا دلچسپ ہوتا ہے، خبروں اور فلموں میں پاکستان کا ایک مخصوص چہرہ پیش کیا جاتا ہے، جو کئی ذرائع سے تو ٹھیک ہوسکتا ہے مگر بیشتر میں غلط ہے، یہ ملک میڈیا رپورٹس کے مقابلے میں بہت زیادہ مختلف ہے'۔

یہ بھی پڑھیں : اس جرمن جوڑے کو پاکستان کیسا لگا؟

اسی طرح ایک اور پوسٹ میں لکھا ' متعدد غیر ملکی پاکستان کا سفر کرنے سے ڈرتے ہیں، انہیں دہشتگرد حملوں یا اغوا کا ڈر ہوتا ہے، ہم ہر ایک کی رائے کا احترام کرتے ہیں، مگر ہمارا ماننا ہے کہ اہمیت اس چیز کی ہے مختلف امور کو ذہن میں اس وقت رکھیں جب ہم کسی ملک کو سفر کے لیے محفوظ یا غیر محفوظ قرار دینے کا فیصلہ کرتے ہیں، ہم یہ نہیں کہتے پاکستان مسائل سے پاک ہے، اب بھی یہاں حملے ہورہے ہیں، مگر عام طور پر یہ ملکی فورسز پر ہوتے ہیں، غیر ملکی سیاحوں پر نہیں، اسی طرح عوامی مقامات پر بھی حملے کا خطرہ ہوسکتا ہے مگر یہ ایک بدقسمت امکان ہے جو کہ متعدد مقبول سیاحتی مقامات پر اس وقت سامےن آرہا ہے، یعنی اب بھی لوگ پیرس اور لندن کا رخ کررہے ہیں'۔

لاہور کے بعد اب یہ جوڑا خیبر پختونخواہ کے مختلف مقامات کی سیاحت کررہا ہے اور انہوں نے اعتراف کیا ' پشاور پہنچنے سے قبل ہم نے پختون مہمان نوازی کی کہانیاں سنی تھیں، دیگر سیاح کہتے تھے کہ پاکستان سب سے زیادہ مہمان نواز لوگوں پر مشتمل ملک ہے اور پشاور کے عوام ان میں سب سے زیادہ مہمان نواز ہیں، گزشتہ چند روز کے دوران ہمیں اس کا تجربہ خود ہوا ہے، ہمارے میزبانوں نے میں تاریخی جگہیں دکھائیں، دیہی زندگی سے متعارف کرایا، ہمیں بطخ کے شکار پر لے گئے، یہ خوبصورت حویلی دکھائی اور ہمین پختون ثقافت کے بارے میں سیکھاتے رہے، انہوں نے بتایا کہ پشاور اور ارگرد کا علاقہ ایک دہاءیسے تشدد کا سامنا کررہا ہے مگر اب حالات میں استحکام آیا ہے'۔

انہوں نے غیرملکی سیاحوں کو مشورہ دیا کہ اگر آپ پاکستان آئے تو پشاور ضرور آئے اگر ممکن ہو تو، وہاں آپ کو تجربہ ہوگا کہ پشتون اپنے مہمانوں سے کتنا اچھا سلوک کرتے ہیں۔

Driving the main roads of Pakistan is always a pleasure, despite frequent traffic, crazy drivers, and long distances. Why is that? The trucks! The trucks of Pakistan are incredibly bedazzled with all kinds of paintings, stickers, lights, and glittery whirly whatchamacallums. We finally got to check out a truck art workshop with our host in Peshawar, and learned a thing or two about the truck art process. The process begins when someone, either a driver or a transport company owner, approaches the truck art workshop about a new job. The client can pick and choose certain styles from a little pictorial portfolio, and choose to have extra decorative bits and bobs added to the final product. At this particular workshop, it's common for the client to pay for the truck as well as the art, and leave the purchasing of the truck to the workshop. The artists find a truck, strip it down to its bare base, then put on a foundation layer of paint before going to town. Back in the day painting was the more common method of pimping out a truck, but these days stickers are the preferred method. More weather proof, ya know. Truck and art together goes for about 35 to 40 lakh rupees, or $40,000. Not bad considering you're getting the whole shebang. Basic art alone costs around $5000, which is a lot in this part of the world. Especially for truck drivers. After about one month, the client can drive their spiffy new Pakistani truck out of the yard and onto the road. Pretty sweet, eh? And would you believe that this truck is relatively plain for Pakistani standards? 😯

A post shared by Alex and Sebastiaan (@lostwithpurpose) on

تبصرے (0) بند ہیں