افغانستان کے دارالحکومت کابل کی مساجد میں دو الگ الگ دھماکوں کے نتیجے میں 60 افراد ہلاک اور55 زخمی ہوگئے۔

افغانستان کی وزارت داخلہ کے ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ کابل کی ایک امام بارگاہ میں دھماکے سے 30 افراد ہلاک اور 45 زخمی ہو گئے۔

بعد ازاں غور کے علاقے میں واقع ایک اور مسجد میں دھماکا ہوا جس سے مزید 33 افراد جاں بحق اور 10 زخمی ہوگئے.

غیرملکی خبر ایجنسی اے پی کے مطابق کابل میں ایک امام بارگاہ میں خودکش دھماکا ہوا جس کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں۔

کابل پولیس کے ترجمان عبدالبصیر مجاہد نے امام بارگاہ مسجد امام ضامن دھماکے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

افغان وزارت داخلہ کے عہدیدار میجر جنرل علی مست مومند کا کہنا تھا کہ دھماکا کابل کے علاقے دشتی برچی میں ہوا جہاں پیدل حملہ آور مسجد امام ضامن میں داخل ہوا اور دھماکا کیا۔

استقلال ہسپتال کے سربراہ محمد صابر نصیب کا کہنا تھا کہ ان کے پاس دھماکے میں ہلاک ہونے والے دو افراد کی لاشوں اور دو زخمیوں کو لایا گیا ہے۔

امام بارگاہ میں ہونے والے دھماکے کی ذمہ داری تاحال کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔

کابل میں 29 سمتبر کو مسجد میں ہونے والے خودکش حملے میں 6 افراد ہلاک اور 16 زخمی ہوگئے تھے۔

مزید پڑھیں:کابل: مسجد کے قریب خودکش دھماکے میں 6 افراد ہلاک

پولیس کا کہنا تھا کہ چرواہے کے بھیس میں خودکش حملہ آور نے خود کو مسجد کے قریب دھماکے سے اڑا لیا، جہاں لوگ محرم الحرام کے جلوس کی تیاری کر رہے تھے۔

کابل کے شمالی علاقے میں حملے کے وقت لوگوں کی بڑی تعداد حسینیہ مسجد میں جمع تھی۔

کابل کے کرمنل انویسٹی گیشن ڈائریکٹر جنرل سلیم الماس نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ’مویشیوں کر چرانے والے خودکش حملہ آور نے خود کو مسجد کے باہر دھماکے سے اڑایا۔‘

یہ بھی پڑھیں:کابل دھماکا : ہلاکتیں 64 ہوگئیں

خیال رہے کہ گزشتہ روز افغانستان کے صوبے قندھار میں افغان نیشنل آرمی کے ایک بیس کیمپ پر خود کش حملے کے نتیجے میں 41 اہلکار ہلاک اور 24 زخمی ہوگئے تھے جبکہ دو روز قبل جنوب مشرقی صوبے پکتیا میں قائم پولیس ٹریننگ سینٹر پر ہونے والے خود کش حملے اور مسلح جھڑپ کے نتیجے میں 32 افراد ہلاک اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔

یاد رہے کہ افغانستان کے دارالحکومت کابل میں رواں سال مئی میں بارودی مواد سے لدے ٹرک کے ذریعے کیے جانے والے بم دھماکے میں 150 افراد ہلاک ہوگئے تھے جس کو کابل کی تاریخ کا خونی ترین حملہ قرار دیا گیا تھا۔

افغان حکام کی جانب سے اس حملے کی ذمہ داری بھی حقانی نیٹ ورک پر عائد کی گئی تھی۔

دوسری جانب امریکا کی جانب سے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف ڈرون کارروائیوں میں اچانک تیزی آئی ہے جہاں افغانستان کے صوبے پکتیا میں ڈرون حملے کے نتیجے میں 12 مبینہ دہشت گردوں کو ہلاک کرنے اور متعدد کو زخمی کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

مزید پڑھیں:24 گھنٹوں کے دوران پاک افغان سرحد پر 4 ڈرون حملے، 31 سے زائد ہلاک

سیکیورٹی ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ امریکی ڈرون نے پکتیا کے علاقے خوش کرم سر میں ایک مقام پر 6 میزائل داغے جس کے نتیجے میں 12 مبینہ دہشت گرد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

رواں ہفتے کے آغاز میں پاک افغان سرحد پر ہونے والے ڈرون حملے میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے علیحدہ ہونے والے گروپ جماعت الحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی اپنے 9 ساتھیوں کے ساتھ ہلاک ہوگئے تھے۔

قبل ازیں پاک-افغان سرحد پر ہونے والے ڈرون حملوں میں درجنوں افراد ہلاک اور متعدد افراد زخمی ہوئے تھے جن کے بارے میں سیکیورٹی حکام کا دعویٰ تھا کہ وہ دہشت گرد تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں