حیدرآباد کی سنٹرل جیل میں قتل اور ریپ کے مجرم کی سزائے موت پر عمل درآمد کرادیا گیا۔

سزائے موت کے منتظر قیدی سکندر علی جویو کی پھانسی کے موقع پر مجسٹریٹ اظہر شامیل موجود تھے، علاوہ ازیں جیل کے چیف ضیاء الرحمٰن نے مجرم کی موت کی تصدیق کی۔

سکندر علی جویو پر 2000 میں اپنے خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک لڑکی کو ریپ کے بعد قتل کرنے کا الزام تھا۔

مجرم کے خلاف کیس دادو میں درج کیا گیا جبکہ انہیں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کورٹ کے جج نے سزائے موت سناتے ہوئے ڈیتھ وارنٹ جاری کیے تھے۔

مزید پڑھیں: 'ذہنی بیمار' شخص کی سزائے موت پر عمل روکنے کا حکم

ڈیتھ وارنٹ جاری کیے جانے سے قبل سکندر علی جویو نے سزائے موت کے خلاف سندھ ہائی کورٹ اور بعد ازاں سپریم کورٹ سے رجوع کیا تاہم دونوں عدالتوں نے فیصلے کو برقرار رکھا۔

اس کے علاوہ صدر مملکت ممنون حسین نے بھی مجرم کی رحم کی اپیل مسترد کردی تھی۔

دوسری جانب اس دوران سکندر جویو کے اہل خانہ نے متقول لڑکی کے والدین سے متعدد مرتبہ معاف کردینے کے لیے رابطہ کیا تاہم مقتولہ کی والدہ نے انکار کیا۔

خیال رہے کہ 2015 کے بعد حیدرآباد میں کسی مجرم کو دی جانے والی یہ پہلی پھانسی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالت سے پھانسی پانے والے مجرم کی سزا معطل

اس سال حیدرآباد جیل میں 1998 میں پی آئی اے کے فوکر طیارے کو اغوا کرنے کی کوشش کرنے والے دو مجرموں کی سزائے موت پر کراچی اور حیدرآباد کی جیلوں میں درآمد کرایا گیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان نے دسمبر 2014 میں سزائے موت پر عمل درآمد دوبارہ شروع کی تھی اور تب سے اب تک تقریباً 420 سے زائد قیدیوں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔

حکومت پاکستان کا موقف تھا کہ اس نے شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد کو بحال کیا ہے تاہم قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے برطانوی ادارے Reprieve کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پانے والے 94 فیصد قیدیوں کو پھانسیاں دہشت گردی سے متعلق جرائم کی وجہ سے نہیں دی گئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں