لاہور ہائی کورٹ نے ذہنی بیماری 'شیزوفرینیا' کے شکار قیدی کی سزائے موت پر عمل درآمد 30 جنوری تک روکنے کا حکم جاری کردیا۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 55 سالہ سابق پولیس اہلکار خضر حیات کو اپنی ساتھی اہلکار کو قتل کرنے کے الزام میں 2003میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

قبل ازیں اقوام متحدہ نے بھی پاکستان پر زور دیا تھا کہ وہ سزائے موت کے منتظر ذہنی بیمار قیدیوں خاص طور پر خضر حیات کے تحفظ کو یقینی بنائے۔

یہ بھی پڑھیں: امداد علی کی ذہنی حالت جانچنے کیلئے میڈیکل بورڈ تشکیل
خضر حیات — فائل فوٹو
خضر حیات — فائل فوٹو

خضر حیات کے مقدمے کی پیروی کرنے والے ادارے جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) کا کہنا ہے کہ خضر حیات کے وکیل نے ستمبر 2015 میں اپنے موکل کی ذہنی حالت کی بنیاد پر اس کی سزائے موت پر عمل درآمد کو چیلنج کیا تھا۔

تاہم لاہور جیل کے حکام نے رواں ہفتے سیشنز کورٹ سے خضر حیات کے ڈیتھ وارنٹ حاصل کرلیے تھے۔

جے پی پی کے مطابق خضر حیات کو 17 جنوری کے روز پھانسی دی جانی تھی تاہم لاہور ہائی کورٹ نے اس کی سزائے موت پر عمل درآمد 30 جنوری تک روک دیا ہے۔

مزید پڑھیں: ذہنی معذور امداد علی کی پھانسی روک دی گئی

جے پی پی کے مطابق، جج شاہد حامد ڈار نے موقف اپنایا کہ اسی طرح کے ایک ذہنی معذور قیدی امداد علی کا کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے اور اس کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر خضر حیات کے معاملے کو آگے بڑھنے دینا نا انصافی ہوگی۔

امداد علی کی سزائے موت پر بھی عمل درآمد لاہور ہائی کورٹ نے آخری لمحات میں روکنے کا حکم دیا تھا اور اب اس کی قسمت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں ہونا ہے۔

واضح رہے کہ خضر حیات کی والدہ اقبال بانو نے درخواست دائر کی تھی جس میں انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ جیل حکام نے 2008 میں ان کے بیٹے میں شیزوفرینیا کے مرض کی تشخیص کی تھی۔

تشخیص کے بعد سے جیل کے میڈیکل آفیسر خضر حیات کے دماغی ہیجان اور ذہنی بیماری کا مسلسل جائزہ لیتے رہے ہیں اور اس کے لیے دماغی امراض کے تدارک کی دوائیں لکھتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: ذہنی معذور شخص کی پھانسی کے خلاف احتجاج

2012 تک خضر حیات کی ذہنی حالت اس حد تک خراب ہوچکی تھی کہ اسے دوسرے قیدیوں کے ساتھ رکھنا مشکل ہوگیا تھا جس کے بعد اسے جیل کے ہسپتال میں منتقل کردیا گیا تھا اور گزشتہ تین برس سے وہ وہیں مقیم تھا۔

اقبال بانو نے اپنے وکیل کے ذریعے دعویٰ کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے اس سے قبل بھی ان کے بیٹے کی سزائے موت پر عمل درآمد روک دی تھی جب ایک میڈیکل بورڈ نے اسے ذہنی طور پر بیمار شخص اور پھانسی کے لیے غیر صحت مند قرار دیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان نے دسمبر 2014 میں سزائے موت پر عمل درآمد دوبارہ شروع کی تھی اور تب سے اب تک تقریباً 420 قیدیوں کو پھانسی دی جاچکی ہے۔

حکومت پاکستان کا موقف تھا کہ اس نے شدت پسندی سے نمٹنے کے لیے سزائے موت پر عمل درآمد کو بحال کیا ہے تاہم قیدیوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے برطانوی ادارے Reprieve کی رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سزائے موت پانے والے 94 فیصد قیدیوں کو پھانسیاں دہشت گردی سے متعلق جرائم کی وجہ سے نہیں دی گئیں۔


تبصرے (0) بند ہیں