امریکا کے سابق صدر باراک اوباما کا کہنا ہے کہ واشنگٹن ان گروہوں میں تفریق نہیں کرتا جو امریکی مفادات کو نشانہ بناتے ہوں یا بھارت کو نشانہ بناتے ہوں۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے ہندوستان ٹائمز لیڈر شپ کانفرنس میں بات چیت کرتے ہوئے کیا، اس سالانہ کانفرنس میں بزنس ٹائیکون اور دنیا کے رہنما شرکت کرتے ہیں۔

رواں سال کانفرنس کا موضوع ’بھارت کا نا قابل یقین ابھرنا‘ رکھا گیا۔

کانفرنس کے دوران میزبان صحافی کرن تھاپر نے کہا کہ ’بیشتر بھارتی یہ سمجھتے ہیں کہ جب دہشت گردی کی بات کی جاتی ہے تو جس دہشت گردی کا ہمیں سامنا کرنا پڑتا ہے اسے آپ کسی اور انداز میں دیکھتے ہیں‘۔

مزید پڑھیں: 'اسامہ بن لادن پاکستان کے مہمان نہیں تھے'

انہوں نے کہا کہ ’امریکا پاکستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کے درمیان تفریق کرتا ہے جیسے حقانی نیٹ ورک، جو افغانستان میں امریکی مفاد ہر حملے کررہے ہیں، اور لشکر طیبہ، جو براہ راست اس ملک پر حملوں میں ملوث نہیں‘۔

جس پر باراک اوباما نے کہا کہ ’یہ ایسا نہیں جیسا سوچا جارہا ہے‘۔

سابق امریکی صدر نے کہا کہ جس وقت 2008 میں ممبئی حملے ہوئے تو واشنگٹن نے ’بھی انہیں ایسے ہی دیکھا جیسے بھارتی عوام دیکھتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ بھارت الزام لگایا ہے کہ لشکر طیبہ 2008 میں ہونے والے حملوں میں ملوث ہے جس نے بھارت کے معاشی حب کو ہلا کر رکھ دیا تھا جبکہ بھارت کے اس موقف کی واشنگٹن نے بھی حمایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: 'اسامہ آئی ایس آئی کی قید میں تھے'

2012 میں واشنگٹن نے جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کے سر کی قیمت 1 کروڑ ڈالر مقرر کی تھی، جن پر ممبئی حملوں میں ملوث تنظیم لشکر طیبہ کے ساتھ منسلک ہونے کا الزام لگایا گیا۔

باراک اوباما کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد ’ہمارے انٹیلی جنس اور فوجی اہلکاروں کو فوری طور پر بھارتی حکومت کے ساتھ کام کرنے کے لیے تعینات کردیا گیا تھا‘۔

پاکستان ایک شرکت دار

کانفرنس کے دوران سابق امریکی صدر نے واشنگٹن کو پیش آنے والے مستقل مسائل کی جانب نشاندہی کی۔

سابق امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ’دہشت گردوں کے خلاف لڑائی کے معاملے میں پاکستان بہت سے طریقوں سے ایک شراکت دار ہے‘۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ’لیکن کچھ ایسے عناصر ہیں جو کچھ وقت میں ہمارے اچھے شراکت دار نہیں رہے‘۔

مزید پڑھیں: ‘اسامہ پاکستان میں القاعدہ ریاست بنانا چاہتے تھے’

اس موقع پر بھارتی میزبان کی جانب سے ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف ہونے والے آپریشن اور اس حوالے سے پاکستانی کردار پر سوال کیا گیا۔

جس کے جواب میں باراک اوباما کا کہنا تھا کہ امریکا کو ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پاکستانی حکام القاعدہ کے رہنما کی موجودگی کے بارے میں آگاہ تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں