اسلام آباد ہائی کورٹ میں فیض آباد انٹر چینج پر مذہبی جماعتوں کے دھرنے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے معاہدے کے باوجود پولیس والوں کی تسلی ہونے تک مقدمے کو جاری رکھنے کے ریمارکس دیتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔

عدالتی حکم پر جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی عدالت میں اٹارنی جنرل آف پاکستان اشتر اوصاف بھی پیش ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: وزیر قانون زاہد حامد کا استعفیٰ منظور

سماعت کے دوران انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کی جانب سے پولیس آپریشن کی ناکامی پر سربمہر رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جبکہ چیف کمشنر اسلام آباد نے بھی دھرنے سے متعلق اپنی رپورٹ عدالت کے سامنے میں پیش کی۔

عدالت نے اٹارنی جنرل آف پاکستان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دھرنا قائدین اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کو پرکھنے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں زیر بحث لانے کی تجویز دی گئی ہے اور کہا کہ وفاق اور معاہدے کے ثالث بھی معاہدے کی قانونی حیثیت کو پرکھیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کی جانب سے دی گئی تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اس معاملے کو خود دیکھیں گے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: وفاقی وزیر داخلہ کو توہین عدالت کا نوٹس جاری

ان کا کہنا تھا کہ دھرنے سے متعلق سپریم کورٹ نے نوٹس لیتے ہوئے حکم نامہ جاری کیا تھا جس میں دھرنےسے متعلق تمام نکات کو زیر بحث لایا گیا۔

جس پر جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کی جانب سے جو تجاویز دی گئی ہیں وہ سپریم کورٹ کے حکم نامہ میں شامل نہیں۔

اٹارنی جرنل نے معاہدے میں فوج کی ثالثی پر قانونی معاونت کے لیے عدالت سے وقت طلب کرتے ہوئے کہا کہ تیاری کرکے تفصیلی رپورٹ پیش کروں گا۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیئے کہ دھرنا قائدین اور منتظمن خود توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں، معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں ہے۔

مزید پڑھیں: مظاہرین،حکومت کے درمیان معاہدہ ایسے نہیں ہونا چاہیے تھا،طلال چوہدری

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے استفسار کیا کہ دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کیسے ختم کئے جاسکتے ہیں، مجروح میں ہوا ہوں، زخمی میں ہوا ہوں تاہم ریاست کون ہوتی ہے فیصلہ کرنے والی۔

انہوں نے کہا کہ عدالت اس معاہدے کی توسیق نہیں کرسکتی، جب تک پولیس والوں کی تسلی نہیں کی جاتی مقدمات ختم نہیں ہونے دیں گے۔

حلف نامے کی انکوائری کمیٹی

علاوہ ازیں وزارت داخلہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کو آگاہ کیا کہ بیرسٹر ظفر اللہ نے حلف نامے سے متعلق انکوائری کمیٹی کی سربراہی کرنے سے معذرت کردیا ہے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا کہ ہائی کورٹ کی جانب سے 27 نومبر کو مولانا اللہ وسایا کی درخواست پر مجھے تفصیلی رپقرٹ جمع کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ حقائق یہ ہیں کہ میں کمیٹی کا رکن بنایا گیا لیکن ایک رکن کے اعتراض پر ہتک محسوس کرتے ہوئے کمیٹی اجلاس سے نکل آیا اور دوبارہ کبھی نہیں گیا۔

انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے پر پختہ ایمان رکھتا ہوں اور ان حالات میں اگر میں نے رپورٹ تیار کی تو اس میں ایک یا ایک سے زائد ارکان کے خلاف زیادتی ہونے کا اندیشہ ہے۔

بیرسٹر ظفر اللہ نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کرائے گئے جواب میں عدالت سے استدعا کی کہ انصاف کا تقاضا ہے کہ مجھے اس کمیٹی کی رپورٹ جمع کرانے سے الگ رہنے کی اجازت دی جائے۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے بیرسٹر ظفر اللہ کو انکوائری کرکے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس دیئے تھے کہ بیرسٹر ظفر اللہ انکوائری کرکے بتائیں کہ آئینی ترمیم کا مسودہ کس نے بنایا اور ترمیم کے عمل میں کون کون شامل تھا۔

بعد ازاں دھرنے سے متعلق درخواستوں پر عدالت نے سماعت 12 جنوری تک کے لیے ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر واقع فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعتوں کا دھرنا 7 نومبر سے جاری تھا تاہم دھرنا ختم کروانے کے عدالتی حکم پر جب انتظامیہ کی جانب سے مظاہرین کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا گیا تو مشتعل افراد نے ملک کے دیگر شہروں میں بھی مظاہرے شروع کر دیئے۔

یہ بھی پڑھیں: دھرنا ختم کرانے کیلئے معاہدہ کرنا مجبوری تھا، احسن اقبال

فیض آباد میں 7 گھنٹے طویل آپریشن کے بعد اسے معطل کر دیا گیا جبکہ سیکڑوں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا، لیکن ملک کے دیگر شہروں میں بھی صورتحال کشیدہ ہوگئی اور کئی شہروں میں معمولاتِ زندگی معطل ہوگئے۔

بعدِ ازاں وفاقی حکومت نے ڈی جی پنجاب رینجرز کو حکومت کی جانب سے نگراں مقرر کردیا گیا جس کے بعد ان کے اور دھرنا مظاہرین کے درمیان مذاکرات ہوئے۔

اسی دوران وفاقی حکومت نے مظاہرین کے مطالبات تسلیم کر لیے جس کے بعد زاہد حامد نے وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں