اسلام آباد: چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے واضح کیا ہے کہ رواں برس عدالت عظمیٰ کے ایجنڈے میں انسانی حقوق پر مشتمل عوامی مسائل بلخصوص تعلیم اور صحت سر فہرست ہوں گے۔

چیف جسٹس نے وفاقی دارالحکموت میں مارگلہ پہاڑیوں پر لگے درختوں کی کٹائی سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت میں سپریم کورٹ کے ایجنڈے کے حوالے سے اظہار خیال کیا۔

واضح ہے کہ عدالت عظمیٰ نے مارگلہ کی پہاڑیوں پر درختوں کی کٹائی پر ازخود نوٹس 19 مئی 2016 کو اس وقت لیا جب ایک نجی چینل پر انکشاف کیا گیا تھا کہ بعض بااثر شخصیات کی جانب سے مارگلہ کے جنگلات کی کٹائی اور سیمنٹ فیکٹری سے قدرتی ماحول کو سخت خطرہ لا ہوگیا ہے۔

یہ پڑھیں: لاہور ہائیکورٹ میں قوانین کے منافی ترقیوں کے خلاف عدالت عظمیٰ میں اپیل

نجی چینل کے مذکورہ شو میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ضلع ایبٹ آباد میں گزشتہ 35 برس سے معدنیات نکالنے کا غیر قانونی کام جاری ہے۔

بعدازں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ازخود نوٹس کی سماعت میں خیبرپختونخوا کے چیف سیکریٹری، صوبائی وزیر برائے قدرتی ذخائر ڈویلپمنٹ کو طلب کیا۔

تین رکنی بینچ نے متعلقہ ذمہ داران سے مفصل رپورٹ سمیت 3 برس میں کان کنی کے لیے دی جانے والی لیز کی تفصیلات طلب کیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ معاملے کی سماعت کے دوران متعلقہ محکموں کے ذمہ داران کو ہرحال میں اپنے موقف کے لیے کمرہ عدالت میں موجود ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: پاناما کیس: میڈیا پر دستاویزات لیک ہونے پر عدالت عظمٰی برہم

عدالت عظمیٰ نے کہا کہ ‘پنجاب اور خیبرپخترنخوا کے سیکریٹریز پر تمام ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے، جس پر عدالت نے متعلقہ سیکریٹریز کے خلاف بے قاعدگیوں کا نوٹس لیا’۔

تین رکنی بینچ نے مزید واضح کیا کہ تاریخی ورثے کاٹاس راج کے پہاڑوں اور قدرتی ماحول کو غیرقانونی کان کنی سے نقصان کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

بینچ نے تعجب کا اظہار کیا کہ اداروں افسران زمین لیز پر دینے کے بعد متعلقہ علاقے کا دورہ نہیں کرتے جو صریحاً قوانین کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ متعلقہ محکمے خود قانون شکن کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آتے ہیں اور متاثرہ جگہ کا از خود دورہ کیے بغیر ہی رپورٹ کورٹ میں جمع کرادیتے ہیں۔

مزید پڑھیں: ماحولیاتی تبدیلی سے گریٹ بیرئیرریف ’مردہ‘

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ‘اب معاملات اس طرح نہیں چلیں گے کیوں عدالت رپورٹ میں درج ہر بات یا دعوؤں کا بغور معائنہ کرے گی’۔

دوسری جانب عدالت نے انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی کو حکم دیا ہے کہ ملک میں ماحولیاتی آلودگی سے متعلق تفصیلی رپورٹ جمع کرائی جائے۔

میاں نثار ثاقب نے کہا کہ ‘متعلقہ محکمے اس وقت نیند سے جاگتے ہیں جب معاملہ کے حوالے سے عدالت متحرک ہوتی ہے’۔

اسی دوران عدالت عظمیٰ کے ایک علیحدہ بینچ نے اٹارنی جنرل سے وضاحت طلب کی کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے پروسیکیوٹر جنرل کی تعیناتی کا عمل 23 نومبر 2017 سے اب تک کیوں ممکن نہیں ہو سکا؟

واضح رہے کہ سماعت کے دوران نیب کے اسپیشل پروسیکیوٹر عمران الحق نے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ اسلام آباد کی دو نیب عدالتوں میں سے ایک میں جج تعینات نہیں جبکہ دوسری نیب عدالت کے جج محمد بشیر مارچ میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔


یہ خبر 4 جنوری 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں