اسلام آباد ہائی کورٹ نے 2009 میں شمالی وزیرستان کے علاقے میر علی میں ڈرون حملے کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج سے متعلق کیس میں سابق سی آئی اے اسٹیشن چیف جونیتن بیکس اور قانونی مشیر جون ریزرو کے خلاف ایف آئی آر بحال کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس شوکت عزیر صدیقی نے کیس کی سماعت کی، سماعت کے دوران وفاق کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل میاں عبدالرؤف اور ڈی آئی جی میر واعظ جبکہ درخواست گزار کریم خان کے وکیل مرزا شہزاد اکبر عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران درخواست گزار کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا کہ چیف کمشنر اور پولیس کی جانب سے ڈرون حملوں کے خلاف ایف آئی آر فاٹا منتقل کر دی گئی تھی، جو توہین عدالت ہے۔

مزید پڑھیں: پاک افغان سرحد کے قریب ڈرون حملہ، 3 ’دہشت گرد‘ ہلاک

جس پر عدالت کی جانب سے ایس ایچ او سے استفسار کیا گیا کہ عدالتی حکم کے باوجود آپ نے معاملہ کہیں اور کیسے بھیج دیا، یہ توہین عدالت ہے۔

انہوں نے کہا کہ سی آئی اے چیف نے اسلام آباد میں بیٹھ کر ڈرون حملوں کی سازش تیار کی، اس حوالے سے ایف آئی آر کی حدود یہاں کی ہی بنتی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم ایجنسیوں کے خلاف تو غصے کا اظہار کرتے ہیں مگر سی آئی اے اور بلیک واٹر کے خلاف ہمت نہیں کرتے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے سخت ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اب امریکی غلامی کا باب بند ہونا چاہیے، اگر ایمل کاسی کو یہاں سے لے جایا سکتا ہے تو سی آئی اے چیف کو یہاں کیوں نہیں لایا جا سکتا۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا پاکستان میں فضائی حملے ہماری حدود کی خلاف ورزی نہیں ہیں؟

جس پر ڈی آئی جی میر واعظ نے کہا کہ میں معافی طلب کرتا ہوں، میران شاہ ڈرون حملے کی جائے وقوعہ متنازع ہے جبکہ ڈرون حملوں کی تفتیش کے بارے میں رہنمائی کے لیے وزارت خارجہ سے رابطہ کیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’ڈرون حملے پاکستان کی سالمیت کے خلاف‘

خیال رہے کہ شمالی وزیرستان میں میر علی اور میران شاہ دونوں علاقے ساتھ ساتھ موجود ہیں اور 2009 میں امریکا کی جانب سے یہاں ڈرون حملے کیے گئے تھے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کہا کہ وزارت خارجہ نے سفارتکاری کرنی ہے جبکہ ہم نے فیصلہ قانون پر کرنا ہے، ذمہ داری سے بھاگنے والا کام قابل قبول نہیں، بعد ازاں عدالت نے سابق سی آئی اے چیف کے خلاف ایف آئی آر بحال کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں