اسلام آباد: جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی حیثیت سے تقریری کے خلاف ملک کی متعدد بار ایسوسی ایسشن میں قرارداد منظور ہونے کے بعد بالآخر عدالت عظمیٰ 4 اپریل کو جسٹس قاضی فائز کے خلاف دائر پٹیشن کی سماعت کرے گی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ ریاض حنیف راہی کی پٹیشن کا جائزہ لے کا جس میں مقدمہ قابل سماعت ہے یا نہیں، کا فیصلہ ہوگا۔

یہ پڑھیں: وکلاء برادری کا جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے خلاف درخواست پر تحفظات کا اظہار

اس سے قبل چیف جسٹس ثاقب نثار نے 13 مارچ کو سپریم کورٹ رجسٹرار کی جانب سے ریاض حنیف راہی کی پٹیشن پر اعتراض رد کرتے ہوئے ہدایت کی کہ درخواست پہلے بینچ کے سامنے پیش کی جائے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کے 17 ججوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ واحد جج ہیں جو بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں۔

سپریم کورٹ رجسٹرار نے نقطہ اعتراض میں دلائل پیش کیے تھے کہ درخواست گزار نے انسانی حقوق کو لاگو کرنے کی استدعا نہیں کی اور جس کی آئین کے آرڈ 27، سپریم کورٹ رولز 1980 کے رول 5 میں ضمانت دی گئی ہے اور ریاض حنیف راہی ایڈوکیٹ نے موجود کسی مناسب فورم سے رجوع نہیں کیا۔

پٹیشن میں سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ 5 اگست 2009 اور یکم ستمبر 2014 کو جاری نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیا جایا جس میں قاضی فائز عیسیٰ کو بلوچستان ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کی تقریری کا حکم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جوڈیشل کونسل کی کھلی عدالت میں کارروائی،معاملہ چیف جسٹس کے حوالے

درخواست گراز نے موقف اختیار کیا کہ آئین میں کوئی ایسی شق موجود نہیں جس کے تحت صوبے میں کسی کو ڈائریکٹ چیف جسٹس تقرر کردیا جائے اور جسٹس قاضی عسییٰ کے کیس میں آئین کے آرٹیکل 196 اور 200 کا خاطر میں نہیں لایا گیا۔

درخواست گزار نے الجہاد ٹرسٹ کیس 1996 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت صوبے کا وزیراعلیٰ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا نام ہائی کورٹ کے لیے تجویز کی صورت میں پیش کرسکتا ہے جبکہ قائم مقام گورنر ہائی کورٹ کے لیے چیف جسٹس کا نام پیش کرنے کا حق نہیں رکھتا کیونکہ قائم مقام کی اپنی حیثیت چند دنوں کی ہوتی ہے۔

اسی طرح جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ تقرری کے لیے آئین کے آرٹیکل 105 کے تحت وزیر اعلیٰ کی تجویز لازمی ہے اور قائم مقام گورنر اعلیٰ عدالت کے جج کا نام آگے بھیجنے کا مجاز نہیں ہوتا۔

مزید پڑھیں: حدیبیہ پیپرز ملزریفرنس: لائیو پروگرامز میں کیس زیر بحث لانے پر پابندی عائد

درخواست گزار کی درخواست کے مطابق اس عمل سے سپریم کورٹ میں کام کرنے والے دیگر ججوں کی سنیارٹی متاثر ہوئی جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی تقرری سے پہلے ہائی کورٹ میں کام کر رہے تھے۔

درخواست میں کہا گیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سپریم کورٹ میں تقرری سے ان سے زیادہ تجربہ رکھنے والے ان کے جونیئر بن گئے تھے۔


یہ خبر 30 مارچ 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں