پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے دی گئی تجویز کے مطابق اسٹینڈرڈ سیلز ٹیکس کو 13 فیصد تک کم کرکے ویلیو ایڈڈ ٹیکس کو سروسز پر لیے جانے والے سندھ سیلز ٹیکس کے ساتھ ملایا جائے اور بعد ازاں اسے ایک فیصد سالانہ تک لے جایا جانا چاہیے۔

رجسٹرڈ افراد کو سیکشن 22 کے تحت سارے ریکارڈز 6 سال تک رکھنے کی اجازت ہے جسے کم کرکے 3 سال تک کردی جانی چاہیے۔

مشینریز کی در آمد پر لگائے گئے 10 فیصد سیلز ٹیکس کو استثنیٰ دیا جائے یا اسے کم کرکے ختم کردیا جانا چاہیے۔

تمام زیر التواء دعووں کے ری فنڈ کے انتظامات کیے جائیں اور اس کے لیے ایک واضح طریقہ کار بھی جاری کیا جانا چاہیے۔

درآمد کی گئی اشیاء کی ریٹیل قیمت کو لکھا جائے اور جنرل سیلز ٹیکس کو ریٹیل قیمت کے حساب سے لگایا جانا چاہیے۔

کمپنیوں پر انکم ٹیکس کی زیادہ شرح 30 فیصد ہے جسے کم کر کے 25 فیصد اور چھوٹی کمپنیوں کے لیے 20 فیصد کیا جانا چاہیے۔

سروسز فراہم کرنے والی کمپنیوں کو کم از کم ٹیکس کے دور سے استثنیٰ دی جانی چاہیے یا سروس فراہم کرنے والوں کے لیے کم از کم ٹیکس 2 فیصد کرنا چاہیے۔

آئین کی ضروریات کے پیش نظر تمام فیصلے کرنے والوں کو وفاقی وزارت قانون کے انتظامی کنٹرول میں لانا چاہیے۔

بونس حصص پر موجودہ 12.5 فیصد ٹیکس ختم کرنا چاہیے یا حصص کی لکھی ہوئی قیمت پر 10 فیصد ٹیکس لگا کر اسے موثر بنانا چاہیے۔

سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں رجسٹرڈ تمام کار خانوں کے مالکان کو ادا کیے جانے والے ٹیکس میں جون 2017 تک 3 فیصد ٹیکس کریڈٹ کی سہولت حاصل ہے، اسے بڑھا کر 5 فیصد کردینا چاہیے۔

قدرتی گیس کے صنعتی و کمرشل صارفین سے 7.5 اور 5 فیصد ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے۔

اس ہی طرح بجلی پر بھی صنعتی و کمرشل صارفین سے بالترتیب 7.5 اور 5 فیصد ٹیکس وصول کرنا چاہیے۔

ایس ایم ای کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکس کی شرح کو کم کرکے 20 فیصد کیا جانا چاہیے۔

سپر ٹیکس کو بھی ختم کیا جانا چاہیے۔

ٹیکس حکام کو ٹیکس دہندگان کے احاطے میں داخل ہونے اور تلاشی لینے کے اختیارات کو بھی واپس لیا جانا چاہیے۔


آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کی تجاویز کے مطابق وفاقی بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) کی جانب سے 5 برآمدی شعبوں کو زیرو رِیٹڈ قرار دیا گیا ہے، ان کو 3.63 روہے فی کلو واٹ کے دیگر ٹیرف کے برابر سرچارجز سے بھی زیرو رِیٹڈ کرنا چاہیے۔

بجلی کے ٹیرف کو کم کرکے 11 روپے فی کلو واٹ سے 7 روپے فی کلو واٹ کیا جانا چاہیے۔

گیس کی قیمتوں کو پورے ملک میں 600 روپے ایم ایم بی ٹی یو کرنا چاہیے اور بر آمدات کی صنعت کو بجٹ کے مطابق گیس کی قیمتوں میں فرق کیا جانا چاہیے۔

حکومت کو فوری طور پر ڈیوٹی میں ادائیگیوں کے لیے فنڈز جاری کیے جانے چاہیے تاکہ برآمدات کے حوالے سے دعویداروں کو ان کی رقم فوری مل سکے۔

فری مارکیٹ میکانزم میں کوٹن میں مداخلت کو متعارف کرائے جانے کے بجائے حکومت کو کسانوں کی داخلی قیمت کو کم کرکے کاٹن کو معیاری بیج اور علاقائی قیمتوں میں سروسز فراہم کرکے اس کی پیداوار کو بڑھایا جائے اور سال کے کسی بھی وقت میں سیلز ٹیکس یا کسٹم ڈیوٹی کو نہ لگایا جائے۔

کسٹم ڈیوٹی اور پولیسٹر اسٹیپل فائبر درآمدات پر 7 فیصد اور کوئلے کی در آمدات پر 5 فیصد کسٹمز ڈیوٹی کو ختم کیا جانا چاہیے۔

ٹیکسٹائل کے شعبے میں 1.25 فیصد کا ٹرن اوور ٹیکس کو ختم کردینا چاہیے۔

بہترین بین الاقوامی طریقہ کار کے مطابق لانے کے لیے کارپوریٹ ٹیکس کے بالائی کیپ کو 25 فیصد مقرر کیا جانا چاہیے۔

مصنوعی دھاگوں کی در آمد پر 15 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی جانی چاہیے۔

ایس آر او 1125 (آئی)/2011 کے 14ویں نکات کو ختم کرتے ہوئے زیرو رِیٹڈ سپلائیز پر لگائی جانے والے مزید ٹیکس کی شرح کو ختم کیا جانا چاہیے۔

حکومت کی جانب سے ایس آر او میں ترمیم کے بعد فیول پر زیرو ریٹنگ کا اعلان کیا گیا تھا اس سہولت پر ای پورٹل کے ذریعے 2010 سے اب تک کے ری فنڈز کیے جانے چاہیے۔

نئے سرمایہ کاروں کو لانے کے لیے ان باتوں پر عمل کیا جانا چاہیے۔

  • ٹیکسٹائل کی صنعت کے لیے سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش طویل المدتی پالیسی بنائی جانی چاہیے۔

  • گارمنٹ کے پلانٹس کے انفراسٹرکچر بنانے کے لیے ایل ٹی ایف کی سہولت کو اجازت دی جانی چاہیے۔


پاکستان بزنس کونسل کی جانب سے بجٹ کے حوالے سے دی گئی تجاویز کے مطابق ٹیکس کا اطلاق آمدن پر ہونا چاہیے مکمل اور حتمی صورت میں لیے جانے والے ٹیکس کے طریقہ کار ختم ہوجانا چاہیے اور ذرائع سے لیے جانے والے ود ہولڈنگ ٹیکس کے ساتھ ایڈوانس ٹیکس جیسا سلوک کرنا چاہیے۔

سیکشن 111(4) کے تحت ٹیکس سے مستثنیٰ ترسیلات زر کو ایک اکاؤنٹ سے 24 ہزار ڈالر فی سال تک محدود کردیا جانا چاہیے اور اس سے زائد کی ترسیلات پرمروجہ ٹیکس لیا جائے۔

فیڈرل بیورو آف ریوینیو (ایف بی آر) کے ڈیٹا بیس کو کھنگالا جائے تاکہ نئے ٹیکس دہندگان اور ذمہ داری سے اپنے واجبات ادا نہ کرنے والے افراد کی نشاندہی ہوسکے۔

نان فائلرز افراد سے فائلرز کے مقابلے میں 3 گنا اضافی ود ہولڈنگ ٹیکس وصول کیا جانا چاہیے۔

مشینوں اور پلانٹس کی درآمد پر عائد 3 فیصد کسٹم ڈیوٹی کو ختم کیا جانا چاہیے۔

اس کے ساتھ ساتھ کوئلے اور پیٹرولیم کوک پر عائد 5 اور 6 فیصد کسٹم ڈیوٹی کو بھی کم کر کے صفر کردیا جانا چاہیے۔

پاک افغان سرحد پر طورخم اور چمن کے سرحدی مقام پر اسکینرز نصب کیے جائیں تا کہ تجارت کے لیے افغان کے راستے کا غلط استعمال ختم کیا جاسکے۔

ایسی صنعتیں جن کی پیداوار کو سیلز ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہو انہیں ان کی پیداوار پر زیرو ریٹنگ کی اجازت دی جانی چاہیے۔

ایسی سرکاری کمپنیاں جو اپنے منافع کا سالانہ 40 فیصد حصہ تقسیم نہیں کرتیں، ان کے منافع پر 7.5 فیصد ٹیکس لاگو کیا جانا چاہیے۔

کارکنان کی فلاح وبہبود فنڈ کی مد میں 100 فیصد کٹوتی کی جائے۔

ایسی صنعتیں جو اپنے ادارے میں ہر سال 50 یا اس سے زائد نئی نوکریاں پیدا کر رہی ہیں، کی ٹیکس میں ایک فیصد کی کمی کی جائے۔

2014 کے فنانس ایکٹ کی روشنی میں مشینوں اور پیداواری پلانٹ پر ابتدائی قیمتوں میں کمی کی مراعات کو 25 فیصد سے بڑھا کر واپس 50 فیصد کردیا جائے۔


بیرون ملک مقیم سرمایہ کاروں کی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی جانب سے دی گئی تجاویز کے مطابق 2015 میں نافذ کیے گئے 3 سے 4 فیصد سپر ٹیکس کو ختم کیا جانا چاہیے۔

ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق 19-2018 کے مالی سال کے لیے کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرح 25 فیصد ہونی چاہیے۔

ملک کے اندر مختلف دائرہ کاروں میں سیلز ٹیکس گھٹا کر 13 فیصد کیا جانا چاہیے۔

سال 2017 میں غیر تقسیم شدہ منافع کے حوالے سے فنانس ایکٹ 2017 میں کی جانے والی ترمیم کو منسوخ کیا جانا چاہیے۔

خام مال کی درآمد پر سالانہ ریگولیٹری ڈیوٹی کو ختم کیا جانا چاہیے جو مقامی طور پر تیار نہیں ہوتی۔

بڑے پیمانے پر براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو پرکشش بنانے کے لیے درج ذیل اقدامات اٹھائے جائیں:

  • ٹیکس کریڈٹ کی شرح سرمایہ کاری کی رقم کے مطابق 10 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کی جائے۔

  • نئی صنعتوں کو پیداور کے پہلے سال کے دوران پیشگی ٹیکس کی ادائیگی کے بغیر خام مال درآمد کرنے کی اجازت دینی چاہیے اور بعد کے سالوں میں خام مال کی درآمد پر ضرورت پڑنے کی صورت میں پیشگی ٹیکس سے چھوٹ دی جائے۔

  • سیکشن 59/اے اے اور 59/ بی کے تحت بڑے اداروں کے قیام کو آسان بنانے کے لیے گروپ لابیت کی سہولیات کو بحال کیا جانا چاہیے، تمام شعبوں میں سیلز ٹیکس کی شرح اور پالیسیوں کے درمیان ہم آہنگی ہونا ضروری ہے اور انہیں آپس میں مقامی معیار کے مطابق 12 فیصد سیلز ٹیکس کی شرح کے ساتھ منسلک ہونا چاہیے.

زیر التوا ٹیکس 6 مہینے کے اندر منظم طریقے سے ادا ہو جانے چاہیے اس کے بعد بھی باقی رہ جانے والے ٹیکس کو زیادہ سے زیادہ 45 دن میں ادا کر کے ختم کیا جائے۔

زیرو ریٹنگ کی سہولت کو بحال کیا جائے جبکہ ڈیری سیکٹر اور مقامی ادویات کو بھی زیرو ریٹنگ کے زمرے میں لایا جائے تا کہ ادویات بنانے والی کمپنی کی قیمتیں حکومت کی جانب سے مانیٹر کی جاسکیں۔

فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو 11.5 فیصد سے کم کر کے 8.5 فیصد کیا جانا چاہیے جسے آہستہ آہستہ ختم کیا جانا چاہیے۔


یہ تجزیہ 23 اپریل 2018 کو ڈان اخبار کے ہفت روزہ بزنس اور فنانس میں شائع ہوا

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں