عدلیہ میں ’مداخلت‘ کےخلاف ازخود نوٹس پر سماعت کیلئے سپریم کورٹ کا نیا بینچ تشکیل

25 اپريل 2024
چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ 30 اپریل کو سماعت کرے گا — فائل فوٹو
چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ 30 اپریل کو سماعت کرے گا — فائل فوٹو

عدلیہ میں مبینہ مداخلت کے خلاف ازخود نوٹس پر سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا نیا بینچ تشکیل دے دیا دیا۔

ڈان نیوز کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں چھ رکنی بینچ 30 اپریل کو سماعت کرے گا۔

بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں جبکہ جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان بھی چھ رکنی بینچ کا حصہ ہوں گے۔

نئے بینچ میں گزشتہ سماعت کرنے والے جسٹس یحییٰ آفریدی شامل نہیں ہوں گے۔ انہوں نے اپنے تحریری نوٹ میں خود کو بینچ سے الگ کر لیا تھا۔

جسٹس یحییٰ آفریدی کے علاوہ گزشتہ بینچ کے تمام ارکان نئے بینچ کا بھی حصہ ہوں گے۔

واضح رہے کہ 11 اپریل کو سپریم کورٹ نے معاملے کی سماعت کی تھی جس کے تحریری حکم نامے میں معاملے پر ردعمل کے لیے تجاویز طلب کی گئی تھیں۔

معاملے پر اعلیٰ عدلیہ کا بطور ادارہ ردعمل کیا ہونا چاہیے اس پر سپریم کورٹ نے پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار اور وفاق سے تجاویز طلب کی ہیں۔

حکم نامے میں تجاویز کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ کس طریقہ کار کے تحت مستقبل میں ایسے معاملات سے بچا جا سکتا ہے، ذمہ داروں کا تعین اور ان کے خلاف کاروائی کا کیا طریقہ کار ہونا چاہیے اس حوالے سے تجاویز دی جائیں۔

اس حوالے سے کہا گیا کہ پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر، ہائی کورٹس کے رجسٹرار اور وفاقی حکومت کے لیے اٹارنی جنرل کو نوٹسز جاری کیے جائیں کیونکہ قانون کی آئینی تشریح کے حوالے سے معاملات سوالات زیر غور ہیں۔

حکمنامے میں کہا گیا کہ سینئر وکیل حامد خان اور خواجہ احمد نے نشاندہی کی تھی کہ انہوں نے خط سے متعلق آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت پٹیشش دائر کی ہے، لہٰذا اسے فوری سنا جائے لیکن انہیں یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کورٹ کے تحت سنا جا رہاہے اس لیے اسے پہلے تشکیل کردہ کمیٹی کے سامنے نظرثانی کے لیے پیش کیا جائے گا اور کمیٹی کی جانب سے منظوری کے بعد سنا جائے گا۔

قبل ازیں 3 اپریل کی سماعت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے تھے کہ عدلیہ کی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کریں گے، ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ تشکیل دے دیں۔

پس منظر

واضح رہے کہ 25 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے ججز کے کام میں خفیہ ایجنسیوں کی مبینہ مداخلت اور دباؤ میں لانے سے متعلق سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا۔

یہ خط اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری، جسٹس بابر ستار، جسٹس سردار اعجاز اسحٰق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے لکھا گیا۔

ججز کے خط پر سپریم کورٹ نے دو فل کورٹ اجلاس منعقد کیے جن میں اس معاملے پر غور کیا گیا، بعد میں چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی۔

اس ملاقات کے بعد 30 مارچ کو ایک رکنی انکوائری کمیشن بنانے کی منظوری دے دی گئی تھی، اور جسٹس (ر) تصدق جیلانی کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ اجلاس نے 25 مارچ 2024 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 معزز جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا۔

اجلاس کو بتایاگیا تھا کہ سپریم کورٹ کے فل کورٹ اعلامیے کے مطابق عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی وزیر اعظم سے ملاقات میں انکوائری کمیشن کی تشکیل تجویز ہوئی تھی۔

تاہم بعد میں جسٹس (ر) تصدق حسین جیلانی نے انکوائری کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی جس کے بعد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کے خط کا ازخود نوٹس لیتے ہوئے 7 رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں