اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ نے تین ماہ قبل لاپتہ ہونے والے سائنسدان کی تاحال عدم بازیابی پر خفیہ ایجنسیوں کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان سے مفصل رپورٹ طلب کرلی۔

لاپتہ ہونے والے سائنسدان کے والد حبیب حسین نے درخواست میں الزام عائد کیا کہ ان کا بیٹا نوزیر حسن نیشنل ڈیولپمنٹ کامپلکس (این ڈی سی) میں جنرل منیجر کے عہدے پر فائز تھا اور 12 جنوری کو نامعلوم افراد نے جی 11 کے رہائشی علاقے میں ان کے بیٹے اور بہو کو ان کے بچوں کے سامنے اغوا کیا۔

یہ پڑھیں: لاپتہ افراد بازیابی کیس: سندھ ہائی کورٹ کا پولیس کو رپورٹ پیش کرنے کا حکم

واضح رہے کہ عدالت نے 11 اپریل کو ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) اور انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

گزشتہ روز آئی ایس آئی کے نمائندے نے عدالت میں پیش ہو کر موقف اختیار کیا کہ ادارے نے سائنسدان اور ان کی اہلیہ کو نہیں اٹھایا اور نہ ہی ادارے کو دونوں کے بارے میں کچھ معلومات ہیں۔

جس پر پٹیشنر کے وکیل نے کہا کہ ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو معلوم ہونا چاہیے کہ سائنسدان اغوا ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘بڑے تعجب کی بات ہے کہ آئی ایس آئی کو معلوم نہیں کہ حساس ادارے کا سائنسدان اپنی اہلیہ کے ہمراہ اغوا ہو گیا’۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی ایم کا لاپتہ افراد کی بازیابی اور پختونوں کو بنیادی حقوق دینے کا مطالبہ

وکیل نے دلائل دیئے کہ وزارت دفاع کے قانون کے مطابق اگر حساس ادارے کا ملازم لاپتہ ہوتا ہے تو وزارت دفاع 24 گھنٹے میں انکوائری مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی پابند ہے اس لیے وزارت دفاع بتائے کہ اس ضمن میں کیا کارروائی عمل لائی گئی۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے خفیہ اداروں سے 2 ہفتے میں مفصل رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 15 دن کے لیے ملتوی کردی۔

درخواست گزار حبیب حسن کے وکیل انعام الرحیم ایڈووکیٹ نے بتایا کہ رمنا پولیس اسٹیشن افسر (ایس ایچ او)، انسپکٹر جنرل (آئی جی) کیپٹل پولیس، وزارت دفاع، آئی ایس آئی اور سیکریٹری دفاع کو درخواست میں فریق بنایا گیا ہے۔

پٹیشن میں کہا گیا کہ سادہ لباس میں ملبوس چند افراد کے ہمراہ کالے لباس میں چند نقاب پوش مسلح افراد گھر میں داخل ہوئے اور تلاشی لینا شروع کردی۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب کے خلاف توہین عدالت نوٹس کی درخواست دائر

اس میں مزید کہا گیا کہ ‘گھر میں داخل ہونے والے مسلح افراد یقیناً خفیہ ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے میرے بیٹے اور بہو کو بچوں کی موجودگی میں اٹھایا جس پر بچے چیختے چلاتے رہے’۔

درخواست میں کہا گیا کہ ‘مسلح اہلکاروں کے ہمراہ کوئی خاتون اہلکار نہیں تھی اور نوریز حسین کی بیوی سے مرد سیکیورٹی اہلکاروں نے بدتمیزی بھی کی’۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ رمنا پولیس اسٹیشن میں واقع کی ایف آئی آر 17 جنوری کو درج کروائی گئی تاہم تین ماہ گزر جانے کے باوجود پولیس ان کے بیٹے اور بہو سے متعلق معلومات دینے سے گریزاں ہیں۔


یہ خبر یکم مئی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں