قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین اور لاپتہ افراد کے انکوائری کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے تعاون نہ کرنے پر توہین عدالت کے نوٹس کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے 11 مئی 2017 کو کمیشن کو خالد محمود کی گمشدگی سے متعلق ریکارڈ فراہم کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سکینہ بیگم نے اپنے وکیل مولانا وجیہہ اللہ کے ذریعے جسٹس (ر) جاوید اقبال اور سیکریٹری کمیشن فرید احمد خان کے خلاف عدالتی احکامات پر عمل نہ کرنے پر توہین عدالت کی کارروائی کرنے کے لیے درخواست دائر کی تھی۔

مزید پڑھیں: ’پنجاب حکومت نیب کے ساتھ تعاون نہیں کررہی‘

درخواست میں کہا گیا تھا کہ 21 مارچ 2015 کو فوج اور پولیس کی وردی پہنے 20 افراد راولپنڈی کے علاقے فیروز پورا میں قائم ان کے گھر میں داخل ہوئے اور خالد محمود کو اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت نے فروری 2011 میں کمیشن قائم کیا تھا اور جسٹس جاوید اقبال کو اس کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

کمیشن کی ویب سائٹ کے مطابق اس کے اسٹیک ہولڈرز میں آرمڈ فورسز، انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، ملٹری انٹیلی جنس اور وزارت دفاع، داخلہ اور قانون شامل ہیں۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال گزشتہ سال اکتوبر کے مہینے میں چیئرمین نیب کا عہدہ سنبھالنے کے بعد اب بھی کمیشن کے سربراہ کے عہدے پر فائز ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیب چیئرمین کو ان کے ماتحتوں نے ’گمراہ‘ کیا، رانا ثناء اللہ

خالد محمود کے حوالے سے جب کمیشن میں معاملہ اٹھایا گیا تھا تو خفیہ ایجنسیز نے بتایا تھا انہیں ریاست مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لے رکھا ہے۔

درخواست گزار نے کمیشن سے تمام کارروائیوں کی سرٹیفائیڈ کاپیز مہیا کرنے کی درخواست کی تھی جسے رد کردیا گیا تھا۔

بعد ازں سکینہ بیگم نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی جس پر جسٹس کیانی نے فریقین کو احکامات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذکورہ دستاویزات درخواست گزار کو فراہم کی جائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک رکنی بینچ 16 مارچ 2018 کو اس پٹیشن کی سماعت کرے گا۔


یہ خبر ڈان اخبار میں 16 مارچ 2018 کو شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں