کراچی: سندھ ہائی کورٹ نے 100 سے زائد افراد کی عدم بازیابی پر سیکریٹری داخلہ، انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سندھ رینجرز اور دیگر متعلقہ حکام کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 15 روز کے اندر رپورٹ طلب کرلی۔

سندھ ہائی کورٹ میں جسٹس نعمت اللہ پھلپوٹو کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نے 100 سے زائد افراد کی بازیابی سے متعلق دائر درخواستوں پر سماعت کی۔

دورانِ سماعت کمرہ عدالت لاپتہ شہریوں کے اہل خانہ اور ان کے بچوں سے بھرا رہا۔

عدالت میں سماعت کے دوران لاپتہ شہری عبدالرحیم نور کی اہلیہ روپڑیں اور عدالت کو بتایا کہ میرے شوہر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاپتہ افراد کے جرائم کی تفصیلات پیش کی جائیں: سپریم کورٹ

لاپتہ شہری کی اہلیہ نے کہا کہ میں کرائے کے گھر میں رہائش پزیر ہوں اور اب کرایہ ادا کرنے سے بھی قاصر ہوں۔

لاپتہ شہری کی اہلیہ کا مزید کہنا تھا کہ ان کی شوہر کی بازیابی کے لیے پولیس سمیت متعلقہ ادارے تعاون بھی نہیں کر رہے۔

عدالت نے 100 سے زائد افراد کی بازیابی کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہ اٹھانے پر پولیس کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے پولیس کو عملی اقدامات اٹھانے کا حکم دے دیا۔

جسٹس نعمت اللہ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے معاملے پر بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیموں (جے آئی ٹیز) کو بے معنی قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی حقوق کمیشن کو لاپتہ افراد کی بڑھتی تعداد پر تشویش

انہوں نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس حکام صرف کاغزی کارروائی میں مصروف ہیں۔

عدالت نے معاملے پر ہوم سیکریٹری، آئی جی سندھ، ڈی جی رینجرز، وفاقی و صوبائی حکومتوں کے قانونی افسران کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے پولیس حکام کو 15 روز میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس اگست میں سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ کے ڈویژن بینچ نے آئی جی پولیس سندھ کو گزشتہ 2 سال کے دوران لاپتہ ہونے والے افراد اور نامعلوم لاشوں کی تفصیلات مرتب کرکے رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس دسمبر میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے مطالبہ کیا تھا کہ لاپتہ افراد پر کمیشن کی تشکیل کے ساتھ ساتھ تاریخ کو درست کرنے کے لیے سچ پر مبنی اور مفاہمتی کمیشن بنایا جائے۔

تبصرے (0) بند ہیں