پشاور: پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنماؤں نے حکومت سے لاپتہ افراد کی بازیابی اور پاکستان میں پختون عوام کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے کا مطالبہ کردیا۔

خیبرپختونخوا کے صوبائی دارالحکومت میں ہونے والے جلسے میں خیبرپختونخوا اور وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں سے آنے والے ہزاروں پشتون عوام نے شرکت کی جہاں انہوں نے ’یہ کیسی آزادی ہے‘ کے نعرے بلند کیے۔

جلسے میں لاپتہ افراد کے اہلخانہ بھی موجود تھے جنہوں نے اپنے پیاروں کی تصاویر اٹھائی ہوئیں تھیں جن کے بارے میں اب انہیں کچھ معلوم نہیں ہے۔

پی ٹی ایم کے روحِ رواں منظور پشتین نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شہید ہونے والوں کو سلام پیش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے حقوق کو ماننا پڑے گا کیونکہ ہم کسی کے خلاف نہیں بلکہ جو ظالم ہے اس کے خلاف ہیں۔

مزید پڑھیں: پی ٹی ایم کا رہنماؤں کے خلاف ایف آئی آر پر احتجاج

پی ٹی ایم کے رہنما کا کہنا تھا کہ پاک فوج ہو یا پھر طالبان، جس نے بھی ظلم کیا ہے ہم اس کے خلاف ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ لاپتہ افراد کے لیے اب تک کیا ہوا؟ ان ماؤں اور بزرگوں کو مجبور نہ کیا جائے جن کے رشتہ دار لاپتہ ہیں۔

منظور مشتین کا کہنا تھا کہ چنگیز خان بھی لوگوں کو مار کر پیسے نہیں لیتا تھا لیکن کراچی میں لاشوں پر پیسے لیے جاتے ہیں۔

پی ٹی ایم کے روح رواں کا کہنا تھا کہ سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کے بعد تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے احسان اللہ احسان کی باری ہے۔

انہوں نے کہا کہ احسان اللہ احسان کو بھی عدالت میں لانا ہوگا اور اس کے بعد سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشروف کو بھی عدالت میں لائیں گے۔

خیبرپختونخوا اور فاٹا کی صورتحال کے حوالے سے منظور پشتین کا کہنا تھا کہ بدامنی کے باعث کاروبار تباہ ہوگیا، اور اب سوات اور وانا کے پھل پشاور کے بجائے لاہور میں بیچے جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا اور فاٹا کے معدنیات پر پختون قوم کا حق ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم آج سے نہیں بہت پہلے سے دہشت گردی سے متاثرہ لوگوں کے ساتھ مدد کرتے آرہے ہیں۔

منظور پشتین نے خبردار کیا کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں کیے گئے تب تک ہر جگہ جلسہ ہوگا، ایک ایک گاؤں میں جائیں گے۔

پی ٹی ایم کی رہنما ثناء اعجاز نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ قبائلی علاقوں میں اسکول، کالج اور ہسپتال کی سہولیات میسر کی جائیں، ان کا کہنا تھا کہ ہم آئین اور قانون کے دائرہ میں رہ کر حقوق مانگیں گے۔

ثناء اعجاز نے طورخم، چمن اور غلام خان میں نیشنل لاجسٹک سیل کے خاتمے، سوات اور ملاکنڈ میں عوام کی جائیداد فوج سے واگزار کرانے کا بھی مطالبہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ جتنے حقوق اسلام آباد اور لاہور کو حاصل ہیں، اتنے ہی حقوق قبائلی عوام کو بھی دیئے جائیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ قبائلی علاقوں میں بنیادی انسانی حقوق دفراہم کیے جائیں اور پشتونوں کی ٹارگٹ کلنگ بند کی جائے۔

عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما عصمت شاہ جہاں نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اپنا مسئلہ سیاسی جماعتوں کے سامنے رکھتے ہیں اور جو ہمارا مسئلہ حل نہیں کرسکتے اس کو ووٹ نہیں دیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ دشمنی کے بجائے ہمارے مسائل کو حل کیا جائے اور جنگی جرائم کے لیے کمیشن بنایا جائے۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) سے تعلق رکھنے والے سینیٹر عثمان خان کاکڑ نے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’دہشت گردی کی جنگ میں 50 ہزار لوگ مارے گئے، فوجی آپریشن کی وجہ سے 20 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے، انگریز کے کرائے کے سپاہی اب ملک کے حکمران ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ پختونوں کے لیے امن، تعلیم، روزگار، ہسپتال چاہتے ہیں وہ ہمارا دوست ہے، اور جو بدامنی چاہتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’راؤ انوار ایک مائنڈ سیٹ ہے جسے ختم ہونا چاہیے، اور ملک کی ایجنسیاں ملک کے اندرونی کاموں میں مداخلت بند کریں‘۔

پی ٹی ایم کی بلوچستان سے تعلق رکھنے والی رہنما لونگا لڑئی کا اپنے خطاب میں کہنا تھا کہ چیک پوسٹوں پر شربت دینے سے ہمارے دکھوں کا مداوا نہیں ہوتا۔

پی ٹی ایم کے رہنما محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ ’اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتے ہیں، ہمیں کسی طرح کی غیر ملکی حمایت حاصل نہیں ہے‘۔

تبصرے (0) بند ہیں