سندھ کے جنوبی حصوں کے شہری علاقوں کے علاوہ بھی دیگر علاقوں میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے تاہم دیہی اور نیم دیہی علاقوں میں پی پی پی کے مد مقابل گرینڈ ڈیموکریٹ الائنس (جی ڈی اے) شدید سیاسی دھچکے کا باعث بن سکتی ہے۔

انتخابات 2018 سے متعلق ڈان اخبار میں شائع ہونے والے تجزیئے کے مطابق پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت کراچی اور حیدر آباد میں متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کی نشستوں پر سیاسی قبضہ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے جو خود پارٹی کے لیے بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے، جی ڈی اے پر مشتمل سیاسی اتحاد پیپلز پارٹی کو متوقع نشستوں سے محروم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات 2018: سب سے بڑی نامعلوم قوت کون؟

مزید یہ کہ صوبے میں پیپلز پارٹی کے 10 سالہ دور اقتدار میں آصف علی زرداری کی جوڑ توڑ کی سیاست سے ابھرتی ہوئی غیر یقینی کی کیفیت اور ووٹرز کی ناراضگی ختم ہوتی معلوم نہیں ہوتی اور جعلی بینک اکاؤنٹ کے تنازع میں آصف علی زرداری اور ان کے قریبی ساتھیوں کے نام سامنے آنے سے الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کے صورتحال مشکل ترین ہو گی ہے۔

پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال ہے کہ مذکورہ کریک ڈاؤن کا مقصد پیپلز پارٹی کو قومی اسمبلی میں نامزد وزیراعظم کی حمایت کے لیے آمادہ کرنا ہے۔

تاہم ممکن ہے کہ بیان کردہ نکات سندھ میں سیاسی منظر نامے میں تبدیلی کا باعث نہ بن سکیں، اس ضمن میں 2 نکات زیر غور ہونے چاہیے۔

سینئر صحافی سہیل سانگی کہتے ہیں کہ ’لوگ پیپلز پارٹی کو 2 وجوہات کی بناء پر ووٹ دیتے ہیں اول نکتہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی سندھ کے لیے وفاق سے ہمیشہ لڑائی پر آمادہ رہتی ہے اور دوم یہ کہ پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار کی بھاگ دوڑ سنبھال سکتی ہے‘۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کا سیاسی مستقبل اب کیا موڑ اختیار کرنے جارہا ہے؟

پیپلز پارٹی کے خلاف صوبائی سطح پر کوئی مربوط اور باقاعدہ اپوزیشن جماعت نہیں اور یہی بات پی پی پی کے لیے باعث فرحت ہے، پیپلز پارٹی کا مخالف سیاسی اتحاد عارضی ہیں اور محض چند دنوں میں ووٹرز کے خیالات کو تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی سندھی زبان والے دیہی اور نیم شہری علاقوں میں سے قومی اسمبلی کی 37 نشستیں حاصل کر سکے گی جس میں کراچی اور حیدرآباد شامل نہیں تاہم جی ڈے اے کے لیے ممکن ہے کہ وہ 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکے۔

دوسری جانب جی ڈے اے کے اہم رہنما اور ضلع نوشیرو فیروز حلقے کے مضبوط امیدوار مرتضیٰ جتوئی کا دعویٰ سامنے آیا کہ جی ڈے اے سندھ میں پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مقابلے میں 15 سے 16 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔

دوسری جانب جی ڈی اے کے جنرل سیکریٹری اور حیدر آباد میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کے خلاف انتخابات لڑنے والے ایاز لطیف پلیجو بھی پُرامید ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر بدین، گھوٹکی، ٹھٹھہ اور لاڑکانہ میں نشستوں پر کامیابی نصیب نہیں ہوئی تو پیپلز پارٹی کے لیے جیت بھی آسان نہیں ہوگی کیونکہ ووٹ دینے والوں کا مزاج تبدیل ہو چکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مفتاح اسمٰعیل کا بجٹ کیا نئے مالیاتی بحرانوں کو جنم دے گا؟

جی ڈے اے کی جنرل سیکریٹری کے مطابق پیپلز پارٹی قیادت اور عوامی نمائندوں کی جانب سے مسلسل کرپشن اور ناقص کارکردگی کے باعث عوام بیزاری کا شکار ہیں اور اسی وجہ ووٹر پیپلز پارٹی سے علیحدگی اختیار کرے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’صوبے میں پیپلز پارٹی مخالف اور حمایت میں بتدریج تبدیلی آئی ہے لیکن پیپلز پارٹی کے گزشتہ 10 برس نے ووٹرز کے مزاج کو بالکل بدل کر رکھ دیا خصوصاً نوجوان اب سیاسی امور پر اپنا موقف رکھتے ہیں، حقیقت میں تو پیپلز پارٹی نے صوبے میں تباہی مچائی ہے‘۔


مکمل تجزیہ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jul 12, 2018 05:01pm
اگر جی ڈی اے والے ایم کیو ایم سے علانیہ بات چیت کرلیں اور اس میں کھلے عام شرکت اقتدار کا فارمولا بھی طے کردیا گیا ہو تو سندھ میں پی پی کو شدید دھچکا لگ سکتا ہے بلکہ وہ اپوزیشن میں بھی جاسکتی ہے، جی ڈی اے کو سندھ کے اردو بولنے والوں کو مطمئن کرنا ہوگا۔