ہر دفعہ انتخابات کے سال میں پیش کیے جانے والے بجٹ پر جو تنازعات سامنے آتے ہیں، اس دفعہ وہ دوبارہ وہ ٹربوچارج ہوگئے ہیں۔ بیرونی کھاتوں کے بظاہر ناقابلِ حل مسائل ہیں، ان کی وجہ سے یہ بات یقینی ہے کہ پاکستان آئی ایم ایف کی طرف جائے گا، بس یہ دیکھنا ہے کہ کب۔

سیاسی طور پر مشکلات کا شکار مسلم لیگ ن پر الزام ہے کہ اس نے اگلے عام انتخابات میں اپنی کامیابی کے امکانات بہتر بنانے کے لیے ایک آئینی مگر متنازعہ مکمل دورانیے کا بجٹ پیش کیا ہے۔

دوسری جانب مسلم لیگ ن کا اسحاق ڈار کے بغیر یہ پہلا بجٹ تھا چنانچہ ایک نازک توازن کی ضرورت تھی: یعنی سابق وزیرِ خزانہ کو قصوروار ٹھہرائے بغیر ان کی کچھ مخصوص پالیسیوں کو واپس کرنا۔ اسحاق ڈار سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی شہہ پر بے تحاشہ اثر و رسوخ کے حامل تھے۔

مگر کل ہی وزیرِ خزانہ بننے والے مفتاح اسمٰعیل جب بجٹ تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو اپوزیشن نے ان کے خلاف ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔

پڑھیے: مسلم لیگ (ن) کا بجٹ امید پر قائم ہے

اپوزیشن کا کہنا ہے کہ جہاں اسمٰعیل کی تقرری آئینی ہے، وہاں اس کی مثال بھی نہیں ملتی اور وزیرِ مملکت برائے خزانہ، جو کہ ایم این اے بھی ہیں کی موجودگی میں یہ نہایت غیر ضروری تھی۔ پارلیمنٹ کے اندر پی پی پی اور پی ٹی آئی کے حال ہی میں دریافت ہونے والے یکساں سیاسی مفادات کا مظاہرہ دیکھنے کو ملا جب دونوں جماعتیں احتجاج کر رہی تھیں۔

بجٹ تقریر کے بعد ڈان سے ایکسکلوزیو گفتگو کرتے ہوئے وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے یہ فیصلہ ایسے سمجھایا: "گزشتہ رات وزیرِ اعظم سے بات چیت ہوئی تھی کہ آیا ضوابط کو معطل کیا جائے، یا پھر وزارتی راستہ اختیار کیا جائے۔ یہ طے پایا کہ ضوابط کی معطلی درست نہیں ہوگی اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا۔"

مفتاح اسمٰعیل کی تقرری ایک تاریخی مثال ہے، مگر ان کا پیش کیا گیا بجٹ نہیں۔ اپوزیشن اور مالیاتی ماہرین کی جانب سے فوراً اس کا آپریشن کر دیا گیا۔ اس بجٹ پر تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ ادائیگیوں کے توازن پر شدید دباؤ، اور عام انتخابات کے قریب آنے پر اخراجات کے سیاسی مطالبوں کے درمیان توازن رکھنے میں ناکام ہو چکا ہے۔

پی پی پی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیرِ خزانہ نوید قمر نے کہا ہے کہ "انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے اس بجٹ پر عمل نہیں کرنا، اور ممکنہ طور پر انہیں یقین ہے کہ اگلی حکومت ان کی نہیں ہوگی۔" بجٹ پر مزید گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، "ہر کسی کو لالی پاپ دیا گیا ہے۔ دیکھیں ایک ایسی معیشت میں جہاں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو (مجموعی قومی پیداوار میں ٹیکس کا حصہ) کم ہو، وہاں آپ کو دھیان رکھنا ہوتا ہے کہ ایک شعبے میں ٹیکس میں دی جانے والی چھوٹ دوسری شعبے سے پوری کی جائے۔ انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا اور اگلی حکومت کے ہاتھ باندھ دیے ہیں۔ ان تحائف کو واپس لینا آسان نہیں ہوگا۔"

مزید پڑھیے: حکومت نے اخراجات پورے کرنے کیلئے گزشتہ برس 12 کھرب روپے کے قرضے لیے

وقار مسعود، جو کہ اسحاق ڈار کے ماتحت سابق سیکریٹری خزانہ اور پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے مخالف رہ چکے ہیں، ناخوش تھے۔ "یہ مالیاتی پالیسیوں سے مکمل انحراف ہے۔ ایف بی آر اب بہت پریشان ہوگا۔ ہم نے دوسری چیزوں کے ساتھ ساتھ بونس شیئرز اور شیئرز پر منافع (ڈیویڈینڈز) پر ٹیکس بڑھانے کے لیے محنت کی اور انہوں نے اسے پوری طرح اٹھا کر پھینک دیا ہے۔ یہ بجٹ موجودہ اقتصادی ضروریات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔"

مگر وزیرِ خزانہ زور دیتے ہیں کہ بجٹ محتاط، اور نتیجتاً حقیقت سے قریب تر ہے۔ "ہم نے ایف بی آر کے محصولات میں 11 فیصد اضافے کا اندازہ لگایا ہے جو کہ جی ڈی پی کی معمولی ترقی سے کم ہے۔ ماضی کے برعکس، جب پینشنز اور تنخواہوں میں اضافے کا تخمینہ بجٹ میں نہیں رکھا جاتا تھا، میں نے تمام اضافوں کا اندازہ لگایا ہے اور اسے بجٹ میں شامل کیا ہے۔ ہمارے مکمل اخراجات جی ڈی پی کی 21.5 فیصد سے کم ہو کر 21.2 فیصد ہوں گے۔"

"روپے کی قدر میں حالیہ کمی اور برآمدی پیکج کے بعد ہماری برآمدات میں مثبت اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ مارچ میں ہماری برآمدات میں 24 فیصد اضافہ ہوا جبکہ درآمدات میں صرف 6 فیصد۔ ہمیں لگتا ہے کہ یہ رجحان کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو سنبھال لے گا۔"

مگر اسحاق ڈار کو ناراض کرنے اور نواز شریف کو شرمندہ کرنے سے بچنے کے لیے کئی لیگی ارکان نے پسِ پردہ رہ کر بات کرتے ہوئے تازہ ترین بجٹ میں پارٹی کی مشکلات کا ذمہ دار اسحاق ڈار کی پالیسیوں کو ٹھہرایا۔ ایک سینیئر لیگی رہنما کا کہنا تھا "ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ بجٹ نہایت غیر ذمہ دارانہ ہے، یہ اس سے کہیں بہتر ہو سکتا تھا۔ ہم اس حٓل تک اس لیے پہنچے کیوں کہ ڈار روپے کی قدر میں کمی نہیں چاہتے تھے۔ برآمدات میں اضافہ تو ہو رہا ہے مگر ادائیگیوں کا توازن مستحکم ہونے میں وقت لگے گا۔"

نگراں حکومت کے دور میں کسی مالیاتی جھٹکے کی توقع نہیں ہے، پر کیلنڈر سال کے اختتام تک معلوم ہوجائے گا کہ بجٹ میں پیش کیے گئے اندازے ہدف سے دور ہیں، یا پھر بیرونی کھاتوں کا خسارہ کم یا واپس ہوا ہے یا نہیں۔

نوید قمر کہتے ہیں کہ "کسی بھی حکومت کے لیے کوئی اچھے آپشن نہیں۔ اگر اچانک کوئی نیا غیر ملکی مددگار، مثلاً چین یا سعودی عرب ہاتھ نہیں بڑھاتا، تو زیادہ کچھ نہیں کیا جا سکتا"، یعنی کہ آئی ایم ایف کا دروازہ کھٹکھٹانا ہی پڑے گا۔

جانیے: وفاقی بجٹ 19-2018 سے متعلق ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ریٹائرڈ بیوروکریٹ وقار مسعود بھی ناامید ہیں۔ "آئی ایم ایف ممکنہ طور پر بجٹ خسارے کو (جی ڈی پی کے) 4 سے 4.5 فیصد تک رکھنے کے لیے کہے گا اور حکومت پہلے ہی اس سے زیادہ کا خسارہ تجویز کر چکی ہے۔ بعد میں کی جانے والی ایڈجسٹمنٹ کے لیے بہت سخت اقدامات کی ضرورت ہوگی۔"

مگر وزیرِ خزانہ کو یقین ہے کہ ان کے اعداد و شمار اور اندازے ٹھیک ثابت ہوں گے۔ "مجھے پورا یقین ہے کہ یہ بجٹ مستحکم ہے اور کسی منی بجٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔"

اگلے چند ماہ میں کانٹے کے انتخابی معرکے کے بعد معلوم ہوجائے گا کہ آیا مفتاح اسمٰعیل درست ہیں یا ان کے ناقدین۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 اپریل 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں