پشاور: صوبہ خیبرپختونخوا کے قبائلی علاقوں کے مختلف حلقوں میں اس بات کا انکشاف ہوا ہے کہ وہاں انتخابی امیدوار ووٹرز کو رشوت دے رہے ہیں اور غریب عوام کو رقم دے کر اس بات کو یقینی بنایا جا رہا کہ وہ انتخابات میں ان کے حق میں ووٹ دیں گے۔

ذرائع کے مطابق پشاور، مردان، صوابی اور خیبر پختونخوا کے مختلف حلقوں میں ووٹ خریدنے کا رجحان پروان چڑرہا ہے اور ان علاقوں میں امیدوار ووٹرز کی توقعات پورا کرنے کے لیے مختلف طریقے اپنا رہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ووٹرز کو رشوت کے طور پر نقد رقم دینے یا قسم دینے سے بات مکمل نہیں ہوجاتی، چالاک امیدوار نہ صرف ووٹرز سے قرآن پر حلف لے رہے ہیں بلکہ انہیں اس بات کا پابند کرکے قسم بھی لی جارہی ہے کہ اگر انہوں نے ان کے حق میں ووٹ نہیں دیا تو ان کی قانونی شادی ختم ہوجائے گی۔

مزید پڑھیں: ‘ووٹ برائے فروخت’

اس حوالے سے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والے صہبت خان نے بتایا کہ ’ووٹرز کو رقم کی ادائیگی کے بعد امیدوار ووٹ دینے کے لیے ان سے قرآن پر حلف لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی کسی چیز کی ضمانت نہیں، جس کے باعث یہ لوگ سماجی، ثقافتی اور مذہبی اہمیت کی لحاظ سے بھی ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ امیدوار ووٹرز سے وعدہ لیتے ہیں کہ اگر وہ انہیں ووٹ نہیں دیں گے تو ان کی شادی منسوخ ہوجائے گی اور ان کی بیویوں کو طلاق ہوجائی گی۔

صہبت خان نے شکوہ کیا کہ ان تمام صورتحال کے باوجود ریٹرننگ افسران کی جانب اب تک کوئی نوٹس نہیں لیا گیا اور نہ ہی کوئی انتخابات کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے حوالے سے پریشان ہے۔

انہوں نے الزام لگایا کہ امیدواروں کی جانب سے انتخابی قوانین کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں اور یہاں تک ہورہا ہے کہ کچھ امیدوار روزانہ کی بنیاد پر ووٹرز میں 4 لاکھ روپے تک کی خوراک تقسیم کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ الیکشن ایکٹ 2017 کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے انتخابی امیدوار 40 لاکھ روپے تک اپنی انتخابی مہم پر استعمال کرسکتا ہے جبکہ صوبائی اسمبلی کے امیدوار 20 لاکھ روپے تک استعمال کرسکتا ہے۔

اس حوالے سے مختلف ذرائع سے جمع ہونے والی معلومات اور ووٹرز کے انٹرویوز سے یہ بات سامنے آئی کہ سیاسی جماعتوں یا آزاد حیثیت میں انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار ووٹرز سے سودا کرنے لیے اپنے ’فرنٹ مین‘ کا استعمال کرتے ہیں اور امیدوار، ووٹرز نقد رقم، سامان یا کمیونٹی سہولیات کی صورت میں ادائیگی کرتے ہیں۔

انتخابات میں حصہ لینے والے امیر امیدوار ووٹرز کو کنواں کھود کر دینے، گلیاں بنانے، سولر پینل تقسیم کرنے، پنکھے یا فلاحی اداروں کو بھاری رقوم کی ادائیگی کرنے، مساجد، مدارس، مزارات یا دیگر مذہبی مقامات پر عطیات کے نام پر ادائیگی کرنے کی پیش کش کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ایک سیلفی کی قیمت ڈھائی سو ووٹ

حیران کن بات یہ ہے کہ امیدوار کاغذات نامزدگی جمع کرانے کے بعد مزارات، خیراتی اداروں اور مساجد کے لیے عطیات دینے کا آغاز کرتے ہیں۔

دوسری جانب ایسے ووٹرز، جو خاص طور پر غریب اور کم پڑھے لکھے ہیں، انتخابات کو جمہوری نمائندگی کے طور پر نہیں دیکھتے بلکہ یہ ان کے لیے موقع ہوتا ہے کہ وہ ووٹ فروخت کرکے انتخابی عمل میں اپنا حصہ ڈالنے کا دعویٰ کرسکیں۔

تبصرے (0) بند ہیں