کراچی: انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے کے مقدمے میں سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی ضمانت منظور کرلی جبکہ اس سے قبل عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں بھی راؤ انوار کی ضمانت منظور کی تھی۔

عدالت نے غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے کے الزام میں راؤ انوار کی ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزم کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔

یاد رہے کہ سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار، سابق ڈی ایس پی قمر احمد شیخ اور دیگر 10 مفرور ملزمان پر نقیب اللہ محسود اور دیگر 3 افراد کے قتل کے بعد ان پر غیر قانونی اسلحہ اور دستی بم کا جعلی کیس پر بنانے پر دوسرا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کیس: راؤ انوار نے ضمانت کیلئے درخواست دائر کردی

اس مقدمے میں تفتیشی افسر ایس ایس پی ڈاکٹر رضوان احمد کی جانب سے انسداد دہشت گردی عدالت میں الگ سے عبوری چالان پیش کر کے حتمی تحقیقاتی رپورٹ جمع کرانے کے لیے وقت مانگا گیا تھا۔

عدالت میں پیش کردہ عبوری چالان کے مطابق ایس ایچ او شاہ لطیف ٹاؤن امان اللہ مروت نے نقیب اللہ کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا جبکہ محمد صابر، نظر جان اور محمد اسحٰق جعلی پولیس مقابلے کے بعد غیر قانونی اسلحہ اور دستی بم لائے۔

اس موقع پر عدالت میں پیش کردہ عبوری چالان کے بعد فاضل جج کی جانب سے ان مقدمات کو ٹرائل کے لیے اے ٹی سی عدالت نمبر 2 بھیج کر تفتیشی افسر کو 2 ہفتوں میں حتمی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار کی ضمانت منظور

واضح رہے کہ اس مقدمے کی تمام تر سماعتیں اِن کمیرہ ہوئیں اور عدالتی کارروائی کے دوران صحافیوں کو کمرہ عدالت میں جانے کی اجازت نہیں گئی۔

اس حوالے سے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے نقیب اللہ کے والد کے وکیل صلاح الدین پہنور کا کہنا تھا کہ ساری عدالتی کارروائی یک طرفہ تھی جبکہ اس قبل نقیب اللہ قتل کیس میں بھی عدالت نے مدعی اور تفتیشی افسر کا موقف سنے بغیر ضمانت کا فیصلہ کیا تھا، جس کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس مقدمے میں عدالت نے صرف راؤ انوار کے وکیل کا موقف سننے کے بعد ضمانت کی درخواست منظور کی، ہم اس فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔

مزید پڑھیں: مقتول نقیب اللہ کے والد کا جج پر عدم اعتماد، مقدمہ منتقل کرنے کی درخواست

واضح رہے کہ اس سے قبل مدعی کے وکیل عدالت میں 2 علیحدہ علیحدہ درخواستیں دائر کرچکے ہیں۔

دائر کی جانے والی ایک درخواست میں استغاثہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا اور مقدمے میں مقرر کردہ سرکاری وکیل اور تفتیشی افسر کو تبدیل کرنے کی استدعا کی گئی۔

اس ضمن میں دائر کی گئی دوسری درخواست میں مذکورہ مقدمے کو انسداد دہشت گردی کی عدالت سے کسی اور عدالت میں منتقل کرنے کی درخواست کی گئی تھی، اس حوالے سے ایک درخواست ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’نقیب اللہ کا قتل راؤ انوار کے اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا‘

ان درخواستوں کے حوالے سے مدعی کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہم نے عدالت کو تحریری طور پر آگاہ کردیا ہے کہ ہم سماعت کا حصہ نہیں بننے گئے اور ہم سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے تک عدالتی کارروائی سے الگ رہیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں انسداد دہشت گردی عدالت پر اعتماد نہیں، ملزم راؤ انوار پروٹوکول کے ساتھ عدالت میں پیش ہوتے ہیں اور عدالت نے ہمارے احتجاج پر توجہ نہیں دی جبکہ راؤ انوار کو ایک دن بھی مجرم نہیں سمجھا گیا۔

خیال رہے راؤ انوار کی جانب سے ضمانت کی رقم جمع کروانے کے بعد انہیں بری کرنے کے باقاعدہ احکامات دے کر رہا کردیا جائے گا، جو اس وقت اپنے ہی گھر میں رہائش پذیر ہیں کیونکہ انتظامیہ نے اسے سب جیل قرار دے رکھا تھا۔

مزید پڑھین: راؤ انوار کو جیل میں نہ رکھنے پر نقیب کے والد کا اظہار مایوسی

اس سلسلے میں سندھ ہائی کورٹ میں ایک اور درخواست بھی زیر سماعت ہے جس میں راؤ انوار کو وی آئی پی پروٹوکول فراہم کرنے اور ان ہی کے گھر کو سب جیل قرار دینے پر اعتراض کیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ اس سے قبل انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار کی ضمانت منظور کرتے ہوئے 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کروانے کا حکم دیا تھا۔

اس ضمن میں راؤ انوار کے وکیل نے موقف اختیار کیا تھا کہ ‘راؤ انوار کا نام نقیب قتل کیس میں زبردستی شامل کیا گیا کیونکہ مقابلہ کے وقت راؤ انوار موقع پر موجود نہیں تھے‘۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب قتل کیس: مقابلہ کرنے والوں کو سامنے سے کیوں گولیاں نہیں لگیں،عدالت

بعد ازاں عدالت نے راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر 5 جولائی کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے ان کی درخواست ضمانت منظور کرلی تھی۔

نقیب اللہ قتل کیس

خیال رہے کہ رواں سال جنوری میں مبینہ طور پر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ اور دیگر 3 افراد کو قتل کردیا تھا.

اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

مزید پڑھیں: راؤ انوار آغاز سے انجام تک!

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول کاروبار کی غرض سے کراچی میں مقیم تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

جس کے بعد یہ معاملہ سوشل میڈیا پر انتہائی شدت اختیار کرگیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی پر مذمت اور محسود قبیلے کے شدید احتجاج کے بعد 19 جنوری کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس واقعے پرپر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں، راؤ انوار کافی عرصے منظر عام سے غائب رہنے کے بعد عدالت میں پیش ہوئے، تاہم انہیں جیل منتقل کرنے کے بجائے ان کے گھر پر ہی نظر بند کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف

رواں ماہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 جولائی کو اس کیس میں راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا بعد ازاں 10 جولائی کو سنائے گئے فیصلے میں ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں