کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس میں ملزمان کے وکلاء سے استفسار کیا ہے کہ کیا کمرے کے اندر سے گولیاں چلی تھیں اور مقتولین کو پیچھے سے ہی گولیاں کیوں لگیں، ’مقابلے میں ہلاک ہونے والوں کو گولیاں سامنے سے کیوں نہیں لگیں‘۔

کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود کیس کے مرکزی ملزم سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان کو انسداد دہشت گردی عدالت میں پیش کیا گیا۔

اس موقع پر انسداد دہشت گردی کی عدالت کے اطراف میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کیلئے جیل میں بی کلاس منظور

کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں راؤ انوار اور دیگر ملزمان کی درخواستِ ضمانت پر وکلاء کی جانب سے دلائل دیئے گئے۔

واضح رہے کہ راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان محمد یاسین، سپرد خان، قمر احمد اور خضر حیات نے ضمانت کی درخواستیں دائر کر رکھی ہیں۔

راؤ انوار کے وکیل عامر منصوب نے اپنے دلائل میں کہا کہ راؤ انوار جائے وقوع پر موجود ہی نہیں تھے، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ اس پر بات کریں کہ کیا کمرے کے اندر سے گولیاں چلیں تھیں اور مقتولین کو پیچھے سے ہی گولیاں کیوں لگیں، ’مقابلے میں ہلاک ہونے والوں کو گولیاں سامنے سے کیوں نہیں لگیں‘۔

انہوں نے موقف اختيار کيا کہ نقيب اللہ کے اغوا سے لے کر پوليس مقابلے تک ان کے موکل کا کوئی تعلق نہيں،عامر منصوب نے راؤ انوار کی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے 3 گھنٹے تک دلائل دیئے۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ قتل: ’بادی النظر میں پولیس مقابلہ منصوبے کے تحت کیا گیا‘

عدالت نے کیس کی سماعت 5 جولائی تک لیے ملتوی کردی، جس میں مدعی کے وکیل صلاح الدین پہنور دلائل دیں گے۔

یاد رہے کہ گزشتہ کی طرح اس مرتبہ بھی راؤ انوار کی عدالت آمد پر پوليس نے انہیں بھرپور پروٹوکول دیا جبکہ ٹريفک آفيسر کی جانب سے ملزم کو سيليوٹ بھی کیا گیا۔

سماعت کے بعد مدعی کے وکيل صلاح الدين پہنورنے ميڈيا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اغوا سے لے کر پوليس کے جعلی مقابلے اور راؤ انوار کے ايئر پورٹ پہنچنے تک، ان کے پاس ہر چیز کے ثبوت موجود ہيں۔

انہوں نے کہا کہ 5 جولائی کو سماعت کے دوران وہ تمام ثبوت عدالت کے روبرو پیش کریں گے۔

اس کے علاوہ جرگہ عمائدين کے نمائندے سيف رحمان اور سماجی کارکن جبران ناصر نے میدیا کو بتایا کہ راؤ انوار خود بے گناہ اور تفتيش کرنے والے افسران کو قصور وار ٹھرا رہے ہيں۔

نقیب اللہ کا قتل

یاد رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو گزشتہ ہفتے ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ جنوری میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jul 04, 2018 05:47pm
تصور کریں چند آدمی ایک کمرے میں یا کھلے میدان میں ہیں، ان کے ہاتھ بندھے ہوئے یا کھلے ہوئے ہیں، ان کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی یا آنکھیں کھلی ہوئی ہیں، ان کو پیچھے سے گولیاں ماری جارہی ہیں۔