اسلام آباد: سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ نے نگراں حکومت اور خاص طور پر فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو ہدایت کی ہے کہ آن لائن انتخابی مہم کے دوران انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں پر کیچڑ اچھالنے کا سلسلہ بند کروایا جائے۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ڈائریکٹر کیپٹن (ر) محمد شعیب نے کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا کہ’ قابلِ اعتراض مواد بیرونِ ملک سے شائع کیے جانے کے باعث اس کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہوجاتا ہے، ہم اپنی بھرپور کوشش کرتے ہیں کہ اس میں ملوث عناصر کےخلاف ایکشن لیا جائے، لیکن ایف آئی اے اور پاکستان ٹیلی کمیونکیشن اتھارٹی کے مابین اس حوالے سے تعاون کی کمی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات سے متعلق جرائم پر 3 سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کا اعلان

سوشل میڈیا پر انتخابی مہم کے ذریعے کی جانے والی مذموم حرکات کے حوالے سے سینیٹر عتیق شیخ کا کہنا تھا کہ کچھ عناصر سیاستدانوں کی تضحیک آمیز تصاویر بنا کر شائع کرتے ہیں جن میں ان کے چہرے فوٹو شاپ کر کے جانوروں پر چسپاں کردیے جاتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر وائر ہونے والے جعلی انتخابی پوسٹر کے حوالے سے سینیٹر عتیق شیخ نے بتایا کہ انہوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) سے اس بارے میں دریافت کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ انتخابی نشانوں کی فہرست میں ’قبر‘ کا نشان موجود نہیں ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شرپسند عناصر کی جانب سے انتخابی عمل کی ساکھ خراب کرنے کی کوششوں کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھانا ناگزیر ہوگیا ہے۔

مزید پڑھیں: ’آزادی اظہار کے نام پر فوج،عدلیہ کی تضحیک برداشت نہیں‘

اس حوالے سے ایف آئی اے کے ڈائریکٹر محمد شعیب کا مزید کہنا تھا کہ اہم سیاسی شخصیات جیسا کہ شہلا رضا، طلحہ محمود، پیر صدرالدین شاہ، عائشہ گلالئی، فہیم مغل، میر محمد صادق اور دیگر نے ایف آئی اے کو شکایت درج کروائیں کہ سوشل میڈیا پر انہیں تضحیک کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہا ایف آئی اے ان حرکات کے سدِباب کے لیے ہر ممکن اقدام کررہی ہے۔

اس ضمن میں کمیٹی کے سربراہ سینیٹر رحمٰن ملک نے تجویز دی کہ پی ٹی اے سوشل میڈیا پر موجود توہین آمیز مواد کی خودکار نشاندہی کے لیے مطلوبہ ٹیکنالوجی خریدے، کیونکہ سوشل میڈیا کی مکمل طور پر نگرانی کرنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے۔

بہاولنگر کی بچیوں کا جنسی استحصال

اجلاس کے دوران 3 بچیوں کا معاملہ بھی اٹھایا گیا جو چولستان کے صحرا میں ریت کے طوفان کے دوران لاپتہ ہوگئی تھیں اور بعدازاں مردہ پائی گئیں۔

ابتدائی رپورٹ میں صحرائی طوفان کو ان کی موت کی وجہ قرار دیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ اہلِ خانہ کو 25 لاکھ معاوضہ ادا کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: وقت سے قبل ہی انتخابات میں دھاندلی ہوچکی ہے، سینیٹ ارکان

تاہم کمیٹی نے اس معاملے کی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا کیوں کہ تینوں بچیوں کی موت ایک ہی دن ہونے اور فوری طور پر معاوضے کی ادائیگی کے دعوے نے معاملے کو مشکوک بنا دیا تھا۔

اجلاس میں بچیوں کی لاشوں کا پوسٹ مارٹم کرنے والی بہاولنگر بنیادی مرکز صحت کی ڈاکٹر عذرا حکیم بھی تھیں جنہوں نے کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ ہسپتال لائی جانے والی بچیوں کی عمر 6 سے 13 سال کے درمیان تھی، پوسٹ مارٹم کے دوران لاشوں پر تشدد کے نشانات پائے گئے جبکہ جسم کی کھال بھی جگہ جگہ سے ادھڑی ہوئی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بچیوں کو ریپ کا بھی نشان بنایا گیا تھا، لاشوں سے اکھٹا کیے گئے نمونے فارنزک ٹیسٹنگ کے لیے بھجوادیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: سینیٹرز کا کالعدم جماعتوں کے امیدواروں کے انتخاب لڑنے پر تشویش کااظہار

اس حوالے سے بہاولنگر پولیس کو سینیٹر رانا مقبول کی سربراہی میں قائم ذیلی کمیٹی میں ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ جمع کروانے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

سینیٹر رحمٰن ملک کا کہنا تھا کہ شرمناک بات یہ ہے کہ پولیس نے معاملہ دبانے کی کوشش کی اور حکم دیا کہ تحقیقات کی جائیں کہ معاوضے کی رقم کس نے ادا کی، اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے پوسٹ مارٹم کرنے والی لیڈی ڈاکٹر کی حفاظت یقینی بنانے کے بھی احکامات دیے۔


یہ خبر21 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں