وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا سمیت ہر چیز پر قومی سلامتی مقدم ہے اور آزادی اظہار کے نام پر فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کی تضحیک کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ’ڈان لیکس سے متعلق رپورٹ چند روز پہلے پبلک کی، کمیٹی کے متفقہ طور پر مجوزہ سفارشات پر عمل درآمد ہو رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ کل پاکستان براڈکاسٹرز ایسوسی ایشن (پی بی اے) کے سینیئر ارکان کو ملاقات کی دعوت دی تھی، میڈیا سے جڑے معاملات، پیشہ ورانہ، انتظامی اور مالی امور پر اچھی ملاقات ہوئی، سب کا نکتہ نظر تھا کمیٹی کو سفارشات ’اے پی این ایس‘ کو نہیں بھیجنی چاہیئیں تھیں، قومی سلامتی سے متعلق ضابطہ اخلاق پر اتفاق طے پایا، قومی سلامتی امورسے متعلق صحافتی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی ہے، جبکہ میڈیا نمائندوں سےملاقات کا سلسلہ ہر ماہ جاری رہے گا۔‘

وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’آج کل سوشل میڈیا کا معاملہ بھی زیر بحث ہے، سوشل میڈیا غیر منظم سا نظریہ ہے، سوشل میڈیا پر کوئی بھی اپنے یا کسی نام سے اکاؤنٹ بنا کر جو مرضی ہو لکھ سکتا ہے، حکومت ہو یا اپوزیشن سب کے قوانین ہیں لیکن سوشل میڈیا پر احتساب نہیں، جبکہ سوشل میڈیا سے عوامی رائے تشکیل پاتی ہے۔‘

یہ بھی پڑھیں: تحریک انصاف کی سوشل میڈیا ٹیم کا رکن زیر حراست

انہوں نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر بڑی مقدار میں توہین آمیز مواد سامنے آیا، سوشل میڈیا پر توہین مذہب کے مواد پر بات کرنے کے لیے الفاظ نہیں، کئی ایسے صفحات تھے جن کے بارے میں بیان نہیں کیا جاسکتا، توہین آمیز پوسٹس دیکھ کر مسلمان ممالک کے سفیروں سے بات کی، جبکہ فیس بک نے بھی توہین آمیز پوسٹس بلاک کرنے میں تعاون کیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا سمیت ہر چیز پر قومی سلامتی مقدم ہے، گزشتہ 2 ہفتوں سے پاک فوج سے متعلق تضحیک آمیز پوسٹس سامنے آئیں، جب بہت مواد سوشل میڈیا پر آیا تو وزیر اعظم نواز شریف نے مجھے مداوا کرنے کی ہدایت کی اور جب ایکشن لیا گیا تو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے سڑکوں پر آنے کی دھمکی دی، کوئی بھی پاکستانی اداروں کے خلاف تضحیک آمیز پوسٹ نہیں کرسکتا۔‘

چوہدری نثار نے کہا کہ ’سوشل میڈیا پر کوئی قدغن نہیں لگائی جا رہی لیکن مادر پدر آزاد سوشل میڈیا کسی بھی مہذب معاشرے اور جمہوری ملک کے لیے ناقابل قبول ہے، ہمارا آئین کہتا ہے کہ ریاستی اداروں کی تضحیک نہ کی جائے، کوئی بھی غیر قانونی کام کرنے نہیں جارہے، آزادی اظہار رائے کی مکمل حمایت کرتے ہیں کوئی پابندی نہیں ہوگی، لیکن سوشل میڈیا پر ناقابل قبول پوسٹ کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔‘

انہوں نے کہا کہ فوج سے متعلق جو پوسٹ سامنے آئیں وہ کسی پاکستانی کا کام نہیں ہوسکتا، سوشل میڈیا پر عدلیہ کی بھی تضحیک کی گئی جس پر چند افراد کو حراست میں لیا گیا تاہم انہیں تمام قانونی سہولتیں فراہم کی گئیں لیکن کچھ لوگوں سے کہنا چاہتا ہوں کہ وہ آزادی اظہار کے مامے چاچے نہ بنیں، فوج اور عدلیہ جیسے اداروں کی تضحیک برداشت نہیں کی جائے گی اور اس سلسلے میں ہم تمام رکاوٹوں کے باوجود آگے بڑھیں گے۔‘

مزید پڑھیں: متنازع سائبر کرائم بل منظور

ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پرکچھ ایس او پیز اتفاق رائے سے طے کی جائیں گے، بھارت، سری لنکا، یورپ کے ایس او پیز کے مطابق تبدیلیاں یہاں بھی لائیں گے، جبکہ نامناسب پوسٹ کرنے والوں کے لیپ ٹاپ کے فرانزک ٹیسٹ کیے جائیں گے۔‘

واضح رہے کہ وزیر داخلہ نے ایک ہفتے قبل سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف منظم مہم میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

اس حکم کے بعد وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے سوشل میڈیا پر پاک فوج کے خلاف منظم مہم میں ملوث افراد کی نشاندہی کرتے ہوئے کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Israr Muhammad Khan Yousafzai May 24, 2017 12:20am
وزیرداخلہ کو یہ بات واضح کرنا ھوگی کہ گستاخانہ تضحیک امیز سے کیا مراد ھے تنقید اعتراض کیا ھوتی ھے اس میں فرق لازمی واضح کرنا پڑیگا تنقید اور اعتراض کرنا ہر ایک کا قانونی آئینی حق ھے اعتراض تنقید سے کو مستثنیٰ نہیں ھے تنقید اعتراض ہر ادارے پر کی جاسکتی ھے اگر صدر وزیراعظم گورنر وزیراعلی پر تنقید بلکہ کچھ لوگ تو انکو بھرے جلسے میں چور ڈاکو کہتے ھیں سیاستدانوں کی تو ہر روز کپڑے تک اتارے جاتے ھیں اگر صدر وزیراعظم گورنر وزیراعلی پر ایسا کرنا جائز ھے تو دوسرے اداروں پر تنقید کی جاسکتی ھے مثال کے طور پر ملک بھر میں ردالفساد آپریشن جاری ھے اس سے پہلے آپریشن ضرب غضب ھوچکا ھے کراچی رینجرز اپریشن اور بلوچستان میں بھی آپریشن ھورہا ھے کیا قوم کو اس بات کا حق نہیں کہ اس بارے میں پوچھ سکیں کہ مذکورہ آپریشنوں کے کیا نتائج سامنے اررہے ھیں دھشتگردی ختم ھورہی ھے یا نہیں اپریشن کتنے عرصہ جاری رہیگا یہ سب کچھ جاننا ہر ایک کا حق ھے جس سے کسی کو محروم نہیں کیا جاسکتا ادارے سب ہماری ملک کے ادارے ھیں انکی غزت نیک نامی ھم سب کا فرض ھے یہ ھم کرینگے لیکن جو سوالات اٹھتے ھیں انکا جواب دینا ھوگا