لاہور: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکز ماڈل ٹاؤن میں پارٹی کو متحد رکھنے اور پارٹی میں فارورڈ بلاک بننے کی افواہوں کو رد کرنے کے لیے اجلاس منعقد ہوا، جس میں صوبائی نشستوں پر منتخب ہونے والے 129 میں سے 121 ارکان نے شرکت کی۔

اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے رہنما رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ تمام ارکان نے شہباز شریف کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ منتخب ہونے والے آزاد اراکین کو غیر سیاسی قوتوں کے دباؤ کا سامنا ہے، جو انہیں بنی گالہ بھیجنا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں شہباز شریف نے نو منتخب اراکین سے وفاداری کا عہد بھی لیا کہ چاہے ان کی جماعت حکومت بنائے یا نہیں وہ پارٹی سے وفادار رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں حکومت سازی کے لیے ن لیگ کی پیپلز پارٹی کو پیشکش

اطلاعات کے مطابق شہباز شریف نے نو منتخب اراکین صوبائی اسمبلی کا اجلاس، ان کے حوصلے بلند کرنے کے لیے بلایا تھا تاکہ انہیں بتایا جاسکے کہ مسلم لیگ (ن) ابھی حکومت سازی کی دوڑ سے باہر نہیں ہوئی۔

اس کے علاوہ اس کی ایک وجہ وہ افواہیں بھی تھیں جس میں کہا جارہا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) حکومت بنانے میں ناکام ہوگئی تو پارٹی کے اندر دراڑیں پڑنے کا امکان ہے۔

اس موقع پر صدر مسلم لیگ (ن) کا کہنا تھا کہ ’یہ مشکل وقت ہے اور میں چاہتا ہوں کہ سب متحد رہ کر درپیش چیلنجز کا سامنا کریں، ہمارا مقصد اقتدار حاصل کرنا نہیں بلکہ عوام کی خدمت کرنا ہے‘۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا اتحاد

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم پنجاب میں حکومت بنانے کی کوشش کررہے ہیں، بصورت دیگر ہم بھر پور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے۔

اجلاس کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے حمزہ شہباز کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ہم اکثریتی جماعت ہیں اور ہمیں حکومت بنانے کا آئینی حق حاصل ہے، جس کے لیے ہم آزاد اراکین سے رابطے میں ہیں۔

ان کہنا تھا کہ مرکز میں شہباز شریف بھر پور اپوزیشن کا کردار ادا کریں گے، جس سے یہ امکان ظاہر ہوتا ہے کہ شہباز شریف قومی اسمبلی میں متوقع طور پر اپوزیشن لیڈر ہوسکتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ‘پی ٹی آئی نے پاکستان کی موروثی سیاست میں دراڑیں ڈال دیں‘

دوسری جانب پنجاب میں صوبائی اپوزیشن لیڈر کے لیے خواجہ سعد رفیق اور حمزہ شہباز کا نام زیر غور ہے، تاہم نو منتخب اراکین اسمبلی کی زیادہ تعداد حمزہ شہباز کو اپوزیشن لیڈر بنانے کی حامی ہے۔

اس ضمن میں پارٹی کے اندرونِ ذرائع نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کو صوبے میں حکومت بنانے میں ناکامی کا سامنا ہوسکتا ہے کیوں کہ اب تک ایک بھی آزاد امیدوار نے باضابطہ طور پر مسلم لیگ (ن) کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔

واضح رہے کہ مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں صوبائی اسمبلی کی 129 نشستوں پر کامیابی حاصل کی ہے، جس کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی 123 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، پاکستان مسلم لیگ (ق) کی 8، پاکستان پیپلز پارٹی کی 6 نشستیں جبکہ 28 اراکین اسمبلی آزاد حیثیت میں منتخب ہوئے۔

مزید پڑھیں: پنجاب میں حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ق) کا اتحاد متوقع

یاد رہے کہ صوبائی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پر 66 خواتین اور 8 اقلیتی ارکان کی شمولیت کے بعد حکومت بنانے کے لیے 185 اراکین کی ضرورت ہوگی۔

اس حوالے سے بات کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے اس بات پر زور دیا کہ مسلم لیگ (ن) اقتدار کی دوڑ میں اب بھی شامل ہے اور اس سلسلے میں انہیں پاکستان پیپلز پارٹی اور 13 آزاد اراکین کی حمایت حاصل ہے۔

دوسری جانب پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری نے اپنے اس دعوے کو دہرایا کہ مسلم لیگ (ق) اور آزاد اراکین کی حمایت کے بعد تحریک انصاف کو پنجاب میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ تعداد کی نشستیں حاصل ہوگئیں ہیں.


یہ خبر یکم اگست 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں