قطر میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے کہ ازبکستان میں طالبان کے وفد نے ازبک وزیر خارجہ سمیت دیگر اعلیٰ قیادت سے ملاقات کی، جس میں دونوں ممالک کے دوطرفہ امور سمیت افغانستان میں امن و امان کی بحالی سے متعلق بات چیت ہوئی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے بتایا گیا کہ طالبان کے پولیٹکل چیف شیر محمد عباس کی سربراہی میں ازبکستان میں 4 روزہ مذاکرات کا دور جمعے کو اختتام پذیر ہوا، اس دوران طالبان کے وفد نے ازبک وزیر خارجہ سمیت افغانستان کے خصوصی ترجمان سے بھی ملاقاتیں کی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: ہتھیار ڈالنے والے داعش کے جنگجوؤں کو عام معافی دینے کا امکان

واضح رہے کہ ازبکستان کے صدر شوکت میرضیاف نے رواں برس مارچ میں افغانستان میں امن و امان کی بحالی کے لیے پیش کش کی تھی۔

سہیل شاہین نے بتایا کہ طالبان اور ازبک وزیر خارجہ و دیگر سے مذاکرات میں غیر ملکی فوجیوں کی بے دخلی سمیت افغانستان میں ازبک فنڈز سے ریلوے لائن اور بجلی جیسے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ ازبک حکام نے ترقیاتی منصوبوں سے متعلق سیکیورٹی خدشات پر بھی بات کی۔

طالبان کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’طالبان نے ازبک حکام سے غیر ملکی فوجیوں کی بے دخلی اور افغانستان کو تسلیم کیے جانے سے متعلق امور پر بھی تبادلہ خیال کیا‘۔

دوسری جانب ازبک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’دونوں جانب سے افغانستان میں ممکنہ طور پر امن کے حوالے سے بات چیت ہوئی‘۔

مزیدپڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے آمادہ ہیں، امریکا

خیال رہے کہ مذکورہ مذاکرات کو عالمی سطح پر اہمیت دی جارہی ہے جبکہ طالبان کی جانب سے افغان اور امریکی سیکیورٹی فورسز پر پرتشدد حملوں کے بعد واشنگٹن نے طالبان سے مذاکرات کی حمایت کردی ہے۔

اسی دوران افغانستان میں داعش کا اثر توڑنے کے لیے طالبان، روس اور ازبکستان کی توجہ کا مرکز بن چکے ہیں جبکہ امریکا، روس پر طالبان کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کرچکا ہے۔

اس کے ساتھ ہی امریکی انسٹیٹیوٹ آف پیس برائے ایشیاء پروگرام کے نائب صدر اینڈر ویلڈر نے افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے روس کے ’مثبت‘ کردار کی تعریف بھی کی۔

انہوں نے کہا کہ ’ازبکستان کا طالبان کے ساتھ افغان حکومت سے رابطہ بڑھانا کارگر ثابت ہوگا‘۔

اس حوالے سے واضح رہے کہ افغان حکومت، طالبان یا ازبکستان کی جانب سے ایسا کوئی بیان جاری نہیں ہوا جس میں 'افغان حکومت' کا ذکر ملتا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کا 17 سال میں پہلی بار جنگ بندی کا اعلان

ازبکستان کے لیے داعش کی موجودگی خطرے سے خالی نہیں کیونکہ ازبکستان میں اسلامک موومنٹ کے سابق جنگجوؤں کو دہشت گرد قرار دیا جاچکا ہے جو افغانستان میں خطرناک حملوں میں ملوث ہیں۔

گزشتہ سال اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کے لیڈر طاہر یلداشیو کے بیٹے کی موت کی اطلاعات سامنے آئیں تھیں جو افغانستان میں داعش کے قدم جمانے میں مرکزی کردار ادا کررہا تھا۔

واضح رہے کہ گزشتہ 5 اگست کو افغانستان کے صوبے جوزجان میں کئی ہفتوں سے جاری لڑائی کے بعد داعش سمیت تقریباً 150 جنگجوؤں نے ہتھیار ڈال دیے، جن میں 2 سینئر کمانڈرز بھی شامل تھے۔

جوزجان کی صوبائی حکومت کے ترجمان محمد رضا غفوری نے داعش کے جنگجوؤں کے حوالے سے بتایا کہ ’درزاب کے علاقے میں داعش کے جس گروہ نے ہتھیار پھینک دیے ہیں انہیں سزا نہیں دی جائے گی‘۔

افغان حکام کا کہنا تھا کہ یہ پہلا موقع ہے کہ داعش کے جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد نے ایک ساتھ ہتھیار ڈالے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں