واشنگٹن: پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے یہ بات امریکی اعلیٰ سفارتی عہدیدار کے اس بیان کے جواب میں کہی جس میں انہوں نے پاکستان پر جنوبی ایشیا میں امن کے فروغ کے لیے کوششیں کرنے پر زور دیا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قطری نشریاتی ادارے 'الجزیرہ' کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کو بھارت اور امریکا کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی ورثے میں ملی جسے بہتر کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا، پاک ۔ بھارت مذاکرات کی حمایت کر ے گا، ایلس ویلز

وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی 26 جولائی کی تقریر، جس میں انہوں نے بھارت کو مذاکرات کی پیشکش کی تھی، کا حوالہ دیتے ہوئے شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ بھارت کے ساتھ تعمیری مذاکرات ہماری پالیسی کا بنیادی نقطہ ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم نے جو کیا ہمارے خیال میں درست تھا، دو ایسے پڑوسی جن کے درمیان بہت سے اختلافات ہوں اور دونوں ایٹمی قوتیں ہوں ان کے معاملات آپ کس طرح سدھا ریں گے؟ جنگ کی کوئی گنجائش نہیں، نہ ہی کسی اور فوجی حل کی، صرف مذاکرات ہی واحد حل ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ نے اپنی گفتگو میں اس تاثر کو مسترد کردیا کہ سابقہ حکومتیں طالبان کو مدد فراہم کرتی رہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ ایک ایسی صورتحال پر قابو پانے کے لیے اپنے ملک کی مدد کر رہی تھیں جو ان کے ہاتھ میں نہیں تھی۔

مزید پڑھیں: افغان حل میں پاکستان کا کردار کلیدی ہے، امریکا

شاہ محمود قریشی نے سوویت یونین کے ساتھ جنگ میں امریکا کی جانب سے افغان جنگجوؤں کی مدد کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ لوگ کون تھے؟ کس نے ان کی مدد کی؟ کس نے انہیں تربیت فراہم کی؟ ہم تاریخ بھلا دیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمارے دوست بدل گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے جن لوگوں کی مدد کی انہیں انتہا پسند کہا گیا، کیا انہیں امریکا آنے کی دعوت نہیں دی گئی؟ کیا انہیں وائٹ ہاؤس میں نہیں بلایا گیا؟ تو دوست بدلتے ہیں حالات بدلتے ہیں، ہم صرف اپنا دفاع کرنے اور اپنی حفاظت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان امریکا کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ امریکا ایک اہم عالمی طاقت ہے، جس طرح امریکا خطے میں دیگر امکانات پر غور کر رہا ہے اور نئے دوست بنانے کی کوشش میں مصروف ہے، اس طرح ہمارے دیرینہ دوستوں میں چین بھی شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ نے پاک-امریکا تعلقات کی بحالی پر اتفاق کیا، وزیرخارجہ

واضح رہے کہ برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' اردو سروس سے گفتگو کرتے ہوئے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور کی امریکی ڈپٹی سیکریٹری ایلس ویلز نے کہا تھا کہ جنوبی ایشیا میں امن خطے کی خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے اور اس کے لیے انہوں نے پاکستان پر اقدامات کرنے کے لیے زور دیا تھا۔

اس کے ساتھ انہوں نے پاکستانی وزیر اعظم کے اس بیان کا بھی خیر مقدم کیا تھا جس میں انہوں نے ہمسایہ ممالک میں امن کی بات کی تھی۔

تاہم امریکی عہدیدار نے پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کے فروغ پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کو افغانستان کے اقتصادی استحکام کی حمایت کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے اسے بھارت اور افغانستان کے درمیان تجارتی گزرگاہ کے استعمال کی اجازت دینی چاہیے۔

مزید پڑھیں: ’افغانستان میں امن مذاکرات کے لیے تشدد کا خاتمہ لازم ہے‘

پاکستان اور افغانستان کے درمیان معاشی تعلقات کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے ایلس ویلز کا کہنا تھا کہ اس سے پاکستان کی مشرقی اور مغربی سرحدوں پر تناؤ کم کرنے میں مدد ملے گی، جبکہ اس سلسلے میں 'بارڈر مینجمنٹ‘ بھی کارگر ثابت ہوگی۔

افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے کی یقین دہانی کرواتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ملا فضل اللہ جیسے تمام دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ چاہتے ہیں۔'

ان کا کہنا تھا کہ امن پاکستان اور افغانستان دونوں کی اولین ترجیح ہونا چاہیے کیونکہ دونوں کو دہشت گردی کا سامنا رہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں