جے آئی ٹی نےسعودی حکومت کو العزیزیہ ملز کی’غلط‘ معلومات فراہم کیں،تفتیشی افسر

اپ ڈیٹ 09 اکتوبر 2018
سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس احتساب عدالت میں زیرسماعت ہے—فوٹو فائل
سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس احتساب عدالت میں زیرسماعت ہے—فوٹو فائل

اسلام آباد: احتساب عدالت میں العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ آخری گواہ نے عدالت کے سامنے اعتراف کیا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے سعودی عرب کی حکومت کو ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ یا العزیزیہ کے بارے میں غلط معلومات فراہم کیں، جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کی ملکیت تھی۔

جرح کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے شارجہ کی اہلی اسٹیل مل سے جدہ تک مشینری کے اسکریپ کی منتقلی کے لیٹر آف کریڈٹ کے بارے میں تفتیشی افسر محبوب عالم سے پوچھا جو حسین نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کروایا گیا تھا۔

اس سلسلے میں سعودی عرب سے باہمی قانونی تعاون کی درخواست میں جے آئی ٹی کی جانب سے غلط مقام کا اندراج کیا گیا اور تفتیشی افسران نے شارجہ کے بجائے دبئی سے منتقل کی جانے والی مشینری کی معلومات مانگیں۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس: خواجہ حارث کا ڈی جی نیب،احتساب عدالت کے جج کی ملاقات پر اعتراض

اس کے ساتھ انہوں نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ دستاویزات میں درج کی گئی اشیا بھی اہلی اسٹیل ملز سے منتقل کی جانے والی ان اشیا سے مختلف تھیں جس کا لیٹر آف کریڈٹ میں ذکر کیا گیا تھا۔

تفتیشی افسر نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ انہوں نے کبھی کسی گواہ کا بیان ریکارڈ نہیں کیا نہ ہی العزیزیہ اسٹیل کمپنی اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کی لاگت کا تعین کرنے کے لیے کسی کو نوٹس جاری کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ دورانِ تفتیش یہ بات میرے سامنے نہیں آئی کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کا قیام ایک دم عمل میں نہیں آیا بلکہ یہ 2014 سے 2016 کے عرصے میں مرحلہ وار قائم کی گئی۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ اسٹیل ملز، فلیگ شپ ریفرنس کے ٹرائل کی ڈیڈ لائن پھرختم

تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے پانامہ پیپرز اسکینڈل میں جے آئی ٹی کے ریکارڈ کردہ حسین نواز کا بیان سنا تھا اور بیان سننے کے بعد بھی یہ بات میرے علم میں نہیں آئی کہ اسٹیل مل یکمشت قائم نہیں کی گئی تھی بلکہ ابتدائی طور پر ایچ ایم ای کا آغاز ایک سکریپ پروسیسنگ پلانٹ کے طور پرکیا گیا تھا۔

دورانِ جرح محبوب عالم نے اس بات کا بھی اعتراف کیا کہ کسی گواہ نے ان کے سامنے پیش ہو کر یہ نہیں کہا کہ نواز شریف نے 1995 سے 1999 کے دوران برطانیہ میں زیر تعلیم حسین اور حسن نواز کو روز مرہ کے اخراجات کے لیے رقم بھیجی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ دورانِ تفتیش ان کے سامنے نواز شریف کا ایسا کوئی بینک اکاؤنٹ بھی سامنے نہیں آیا جس کے ذریعے انہوں نے کسی بھی مقصد کے لیے اپنے بیٹوں کو رقم ارسال کی ہو۔

یہ بھی پڑھیں: العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز نمٹانے کیلئے احتساب عدالت کو مزید 6 ہفتوں کی مہلت

تفتیشی افسر محبوبِ عالم نے انکشاف کیا کہ انہوں نے ایک گواہ جہانگیر احمد، جنہوں نے نواز شریف کا ٹیکس ریکارڈ پیش کیا تھا، کا بیان ریکارڈ کیا تھا۔

تفتیشی افسر نے کہا کہ گواہ نے کسی ایسی کمپنی کا ٹیکس ریکارڈ پیش نہیں کیا جس میں نواز شریف حصہ دار تھے۔

اس کے علاوہ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انہوں نے ایس ای سی پی سے کسی ایسی کمپنی کی معلومات حاصل نہیں کی جس میں نواز شریف حصہ دار تھے۔

گواہ کے بیان اور اس پر جرح کے بعد عدالت نے سماعت آج تک کے لیے ملتوی کر دی تھی۔


یہ خبر 9 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں