خان الاحمر: اسرائیلی وزیر اعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق بینجمن نیتن یاہو نے فلسطینی بدوی گاؤں کی مسماری کا منصوبہ روک دیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق اس معاملے پر اسرائیل کو دنیا بھر سے مذمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔

یہ اقدام اس وقت سامنے آیا جب اسرائیلی افواج مذکورہ گاؤں سے انخلا کروانے اور اسے مسمار کرنے کی تیاریاں کر رہی تھیں، جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم کے اس فیصلے سے ان کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہمنواؤں میں غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کی جانب سے نئی تعمیرات، فلسطینی مکانات مسمار

دوسری جانب گاؤں کےرہائشی اس مسئلے کا پائیدار اور پر امن حل نکلنے کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہیں۔

وزیر اعظم ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام مذاکرات اور مختلف ذرائع سے ہمیں حاصل ہونے والی پیشکشوں پر غور کرنے کا ایک موقع ہے۔

امریکی سیکریٹری خزانہ اسٹیون نوچن سے ہونے والی ملاقات میں بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ گاؤں کو اب بھی مسمار کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہماری پالیسی ہے اور اس کا اطلاق اب بھی ہوگا، میں اسے طویل عرصے کے لیے ملتوی نہیں کرنا چاہتا یہ صرف کچھ وقت کے لیے کیا گیا ہے۔'

مزید پڑھیں: اسرائیل کو ’یہودی ریاست‘ قرار دینے کا متنازع بل منظور

بینجمن نیتن یاہو کا مزید کہنا تھا کہ گاؤں کی مسماری میں التوا کی مدت کا فیصلہ اسرائیلی سیکیورٹی کابینہ کرے گی۔

اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ یروشلم کے مشرقی حصے اور بحیرہ مردار کے ساتھ موجود یہ چھوٹا گاؤں غیر قانونی طور پر بنایا گیا تھا۔

اس گاؤں کو مسمار کرنے کے فیصلے کے تحت گاؤں کے باسیوں کو اکتوبر کے اوائل میں نقل مکانی کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

اس سے قبل اس گاؤں کی متبادل جگہ پر منتقلی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات کے بعد یہ معاملہ کئی سالوں سے عدالت میں موجود تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا فلسطینی امور کے دفتر کو متنازع سفارت خانے میں ضم کرنے کا اعلان

مذکورہ گاؤں کو مسمار کرنے کے فیصلے نے بین الاقوامی برادری کی توجہ اپنی طرف مبذول کروالی تھی جس میں یورپی ممالک نے اسرائیل پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے منصوبے پر عمل درآمد نہ کرے۔

اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے رہائشیوں کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے بتایا کہ اسرائیلی سپریم کورٹ نے 5 ستمبر کو مسماری کے فیصلے کے خلاف کی جانے والی آخری اپیل بھی مسترد کردی، تاہم غیر سرکاری طور پر اس حوالے سے کوئی سمجھوتہ کرنے کی کوشش بھی جاری تھیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے عدالت میں پیشکش کی تھی جس کے تحت ہم شمال کی جانب کچھ سو میٹر نقل مکانی کرنے پر تیار ہیں، لیکن اس پر تاحال حکومت کی جانب سے کوئی ردعمل نہیں دیا گیا۔


یہ خبر 22 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں