اسلام آباد میں وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اعظم سواتی کے فارم ہاؤس میں داخل ہونے اور ان کے گارڈز کو تشدد کا نشانہ بنانے کے الزام میں 2 خواتین سمیت 5 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔

پولیس کا کہنا تھا کہ کچی آباد سے گرفتار افراد کو عدالت میں پیش کیا گیا جہاں سے انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے۔

نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں گرفتار افراد کے رشتے داروں اور ان کے پڑوسیوں نے احتجاج کیا۔

مظاہرین وفاقی وزیر کے خلاف نعرے بازی اور ان کی معطلی کا مطالبہ کررہے تھے، ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں سمیت کچی آبادی کے رہائشی افراد کو ان کا ایک جانور وفاقی وزیر کی زمین میں داخل ہونے پر سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا گیا۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سینیٹر کے گارڈز نے پہلے ان کی بھینس کو ضبط کیا اور جب اس کو واپس لینے کے کم عمرلڑکا وہاں گیا تو انہیں بھی مارا پیٹا گیا اور گارڈز نے لڑکے کے گھر پر حملہ کرکے ان کے اہل خانہ کو تشدد کا نشانہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں:سپریم کورٹ نے وزیر اعظم کے زبانی حکم پر ہونے والا آئی جی کا تبادلہ روک دیا

پولیس کا کہنا تھا کہ باجوڑ سے تعلق رکھنے والے افراد نے سرکاری زمین میں کچی آبادی بسائی ہے اور 26 اکتوبر کو اعظم سواتی کے کے فارم ہاؤس کو نقصان پہنچایا اور فارم ہاؤس میں تعینات گارڈز نے کچی آبادی کے رہائشیوں سے ان کے جانور ہٹانے کا کہا لیکن وہ کلہاڑیوں اور ڈنڈوں سے لیس افراد نے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا اور ان کا اسلحہ بھی چھین لیا۔

پولیس نے اعظم سواتی کے بیٹے عثمان کی شکایت پر کچی آبادی کے رہائشیوں کے خلاف کیس رجسٹر کرکے نامزد 3 افراد کو 26 اکتوبر اور مزید 2 افراد کو 27 اکتوبر کو گرفتار کرلیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ اعظم سواتی کے اہل خانہ کو مبینہ طور پر دھمکانے پر کچی آبادی کے رہائشیوں کے خلاف شکایات ابتدائی طور پر انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) کے پاس درج کرادی گئی تھیں۔

ڈان کو اعظم سواتی نے کہا کہ آئی جی پی جان محمد کے تبادلے کا اس کیس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جان محمد کو 25 جولائی کو انتخابات سے قبل عبوری حکومت نے آئی جی پی اسلام آباد تعینات کیا تھا اور ان کی تبدیلی کا فیصلہ باقاعدہ طور پر کیا جاچکا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ آئی جی پی کے خلاف پہلے ہی کئی شکایات تھیں جو وزیراعظم کے علم میں تھیں۔

مزید پڑھیں:آئی جی پنجاب کی تبدیلی کا حکومتی نوٹیفکیشن معطل

انہوں نے کہا کہ ‘افغانستان اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد قبضے کی زمین پر رہائش پذیر ہیں اور 26 اکتوبر کو وہ اپنے جانوروں کو چرانے کے لیے میرے فارم ہاؤس لے کر آئے تھے اور جب گارڈ نے انہیں وہاں سے ہٹانے کا کہا تو ان پر حملہ کیا اور انہیں زخمی کردیا’۔

ڈپٹی سپرینٹنڈنٹ آف پولیس (ڈی ایس پی) اور ایس ایس پی اسلام آباد کو فوری طور پر معاملے سے آگاہ کیا گیا جس کے بعد ایس ایس پی کے کہنے کے مطابق شکایت آئی جی پی کو فیکس کیا گیا۔

اعظم سواتی نے کہا کہ آئی جی پی سے 38 فون کرنے کے بعد رابطہ ہوا انہوں نے شکایت پر کارروائی کا وعدہ کیا اور اگلے روز پیش رفت کے حوالے سے ایک مرتبہ پھرآئی جی پی سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ ‘کیا آپ سے اب تک کسی نے بات نہیں کی’۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ان کے رویے پر ‘میں نے وزیراعظم، چیئرمین سینیٹ، قائد ایوان اور وزیر مملکت برائے داخلہ سے شکایت کی’۔

اس معاملے ردعمل کے لیے آئی جی پی سے رابطے نہیں ہوسکا کیونکہ ان کا موبائل بند تھا۔

ڈان کو ایک سنیئر پولیس افسر نے کہا کہ اعظم سواتی کے اہل خانہ نے کچی آبادی کے رہائشیوں کی جانب فارم ہاؤس میں جانور لانے کے بعد حملے اور گارڈ کو تشدد کا نشانہ بنانے کے ثبوت پیش کیے تھے۔

پولیس افسر کا کہنا تھا کہ گارڈ کا طبی معائنہ کیا گیا اور بعد میں ایف آئی آر درج کرا دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ کچی آبادی کے رہائشیوں نے اس کے خلاف کوئی شکایت درج نہیں کرائی تاہم انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ گارڈز نے تشدد کیا لیکن اپنے دعویٰ کے مطابق کسی زخمی شخص کو پیش نہیں کیا۔

پولیس، کیپٹل ایڈمنسٹریشن اور وزارت داخلہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ آئی جی پی کو ہٹانے کا فیصلہ ہفتوں پہلے کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات سےقبل تعینات کیے گئے پنجاب اور سندھ کے آئی جی پیز کو ہٹادیا گیا ہے۔


یہ خبر 30 اکتوبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Mazhar Oct 30, 2018 01:37pm
Corruption is returned