قوم ایک تقریر سے تبدیل نہیں ہوتی، اس ملک میں مذہبی انتہاپسندی کی پریشان کن تاریخ کے پیشِ نظر وزیرِ اعظم کے خطاب کے فوراً بعد ایک سخت اور فیصلہ کن ایکشن ہونا چاہیے تھا۔

مگر ناگوار بات یہ ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کی جلائی گئی ’عزم کی لو‘ راتوں رات بجھ گئی ہے جبکہ ایک مرتبہ پھر پرتشدد مذہبی انتہاپسندوں کے ساتھ تصفیے کے لیے ان پرانے بہانوں اور توجیہات کا سہارا لیا جا رہا ہے۔

جب ایک واضح لکیر کھینچنے کی ضرورت ہے، تو اس وقت حقائق چھپائے جا رہے ہیں، بناوٹ سے کام لیا جا رہا ہے اور حالات سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ریاست کا متزلزل ردِ عمل درحقیقت کنفیوژن یا شاید اس ملک کے قیام کی اقدار کی نفی بھی ہے۔

پاکستان کو ایک برداشت پر مبنی، ترقی پسند، ہمہ گیر اور جدید ملک ہونا تھا، اور یہ ایک دن ہو کر رہے گا۔ یہ بانیءِ پاکستان محمد علی جناح کا وژن تھا اور ان کا ہی وژن ہے جس سے ریاست کو رہنمائی اور ہدایت لینی چاہیے۔

اس کے بجائے ریاست کے کچھ عناصر کی خواہش ہے کہ اس ملک کی ضرورتوں کے برعکس فیصلہ کیا جائے۔

پڑھیے: کوشش ہے کہ طاقت کے استعمال کی نوبت نہ آئے، فواد چوہدری

سڑکوں پر موجود پرتشدد مظاہرین کی جانب ریاستی ردِ عمل کا موازنہ اس ردِ عمل سے کریں جس کا نشانہ دوسرے بنتے رہے ہیں۔

قوم سے وزیرِ اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں براہِ راست مظاہرین کے نامعقول، ناقابلِ قبول الزامات اور دھمکیوں کا ذکر کیا۔

سپریم کورٹ کے ججز کو واجب القتل اور آرمی چیف کو غیر مسلم قرار دینے اور افواج کو بغاوت پر اکسا کر مظاہرین نے پاکستانی ریاست کے خلاف کئی جرائم کا ارتکاب کیا ہے۔

مگر ردِ عمل میں کیا کیا گیا؟ ان کے ساتھ ملک کے — مبینہ طور پر — وسیع تر مفاد کے لیے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ مگر پھر بھی مرکزی دھارے کے میڈیا کو صرف اپنا کام کرنے اور واقعات، حقائق اور معلومات پہنچانے کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا ہے۔

ایڈیٹرز کو دھمکیاں دی گئی ہیں؛ اخبارات کی ترسیل میں رکاوٹیں ڈالی گئی ہیں؛ نیوز چینلز کو یا تو ہٹا دیا گیا ہے یا پھر نامعلوم نمبروں پر ڈال دیا گیا ہے اور انتہائی نامعقول بات یہ ہے کہ اس اخبار کے ایک اسٹاف ممبر کو ہائی کورٹ نے غداری کے مقدمے میں طلب کر رکھا ہے۔

مظاہرین گمراہ ہیں مگر جمہوری اختلافِ رائے اور میڈیا کی آزادی اس ریاست اور معاشرے میں مسائل کا شکار ہیں۔ ریاست کے حقیقی دشمنوں کے ساتھ بظاہر دوستانہ رویہ اور جمہوری اور آئینی آزادیوں کے حامیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے میں یہ گھناؤنا تضاد روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔

مزید پڑھیے: مذہبی جماعتوں کااحتجاج: سڑکیں بلاک، عوام پریشان، نظام زندگی متاثر

جائز، قانونی اور آئینی طور پر تحفظ کے حامل اختلافِ رائے کو ریاستی عناصر کی جانب سے قوم اور قومی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دینے اور اسی وقت پرتشدد مذہبی انتہاپسندوں کو خوش رکھنے کے خطرناک رجحان کا سامنا کرنا چاہیے اور اسے جائز طریقے سے چیلنج کیا جانا چاہیے۔

آج صحافیوں کے خلاف جرائم کو حاصل تحفظ کے خاتمے کا عالمی دن ہے۔ حالیہ عرصے میں دنیا بھر کا پروفیشنل میڈیا محاصرے کا شکار رہا ہے۔

مگر پھر بھی یہ کہنا غلط ہوگا کہ پاکستان واقعتاً اسی لہر کا حصہ ہے۔ پاکستان میں میڈیا کو دھمکیاں درحقیقت جمہوریت کی حامی، لبرل اور ترقی پسند آوازوں اور جائز اختلافِ رائے کے لیے عدم برداشت کی وجہ سے ملتی ہیں۔


یہ اداریہ ڈان اخبار میں 2 نومبر 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

یمین الاسلام زبیری Nov 02, 2018 06:40pm
اس اداریہ میں جو بھی کچھ کہا گیا ہے وہ موقع محل کی مناسبت سے ہے۔ ہمارے عوام کا جم غفیر ان پڑھ لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ لوگ نہایت آسانی سے گمراہ ہو جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں میڈیا اور خاص طور سے ٹی وی چینل ہی ان کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر ملک میں ترقی دیکھنا ہے تو، اگر تعصب سے بچنا ہے تو، اگر ناانصافی سے بچنا ہے تو، اور اگر برداشت پیدا کرنا ہے تو اس ملک کی انتظامیہ کو خود انصاف اور برداشت پر فیصلے کرنے ہونگے۔ اسے خود کو تعلیم یافتہ ثابت کرنا ہوگا۔ میں پوری طرح سمجھتا ہوں کہ عمران خان اس مقصد کو حاصل کرنے کے پوری طرح اہل ہیں۔